تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کفار نے اپنی محدود اور ناقص عقل کے مطابق سوالات کئے تھے ۔ جن کے، الحمدللہ علماء کرام نے تسلی بخش جوابات دے کر ان کے منہ بند کر دئیے تھے۔ اب ان باتوں کا ادراک سائنسی ترقی نے بھی کیا ہے۔ ان کی کچھ باتوں کو میں دوستوں کی خدمت میں دوبارہ پیش کررہا ہوں۔
قرآن پاک میں چیونٹیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ، ترجمہ: اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ان کے لشکر جنوں اور انسانوں اور پرندوں (کی تمام جنسوں) میں سے جمع کئے گئے تھے، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت (ان کی خدمت میں) روکے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔ تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے۔‘‘ (سورہ النمل آیت 17 تا 19)
دورِ حا ضر میں وہ لوگ زندہ ہوتے تو یقینا انہیں شرمندگی ہوتی کیونکہ چیونٹیوں کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات سے کئی ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو پرانے زمانے میں انسان کے علم میں نہ تھے۔ تحقیق نے ثابت کر دیا کہ کچھ جانوروں اور حشرات الارض کا طرز زندگی انسانی طرز حیات سے ملتا جلتا ہے جن میں چیونٹیاں بھی شامل ہیں ۔ چیونٹیوں کے بارے درج ذیل حقائق جدید سائنس کی روشنی میں اس بات کے ثبوت میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔
1۔ چیونٹیاں مرنے والی چیونٹیوں کو اسی طرح دفن کرتی ہیں جس طرح انسان کرتے ہیں۔
2۔ انہوں نے اپنے کام کاج کی تقسیم کر رکھی ہے اور تقسیم کار کا ایک نہایت عمدہ نظام ان کے ہاں رائج ہے۔ ان میں منیجر، سپروائزر، فورمین اور ورکر وغیرہ ہوتے ہیں۔
3۔ یہ کبھی کبھار آپس میں مل بیٹھتی ہیں اور گپ شپ کرتی ہیں ۔
4۔ باہمی بات چیت اور ابلاغ کا بھی ان کے ہاں ایک نہایت ترقی یافتہ طریقہ رائج ہے۔
5۔ ان کے ہاں باقاعدہ بازار لگتے ہیں جہاں یہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں ۔
6۔ چیونٹیاں موسم سرما میں طویل عرصے کے لیے اناج کا ذخیرہ کر لیتی ہیں ۔
7۔ اگر اناج میں سے کونپلیں نکلنے لگیں تو یہ اس کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں گویا یہ اس بات سے باخبر ہیں کہ اگر انہوں نے اسے اگنے دیا تو اناج ضائع ہو جائے گا۔
8۔ اگر بارشوں کی وجہ سے ان کا ذخیرہ کیا ہوا اناج گیلا ہو جاتا ہے تو یہ اسے خشک کرنے کے لیے دھوپ میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ خشک ہو جائے تو چیونٹیاں اسے اندر لے جاتی ہیں جیسے ان کے علم میں ہو کہ اس اناج میں نمی آگئی تو اس کی جڑیں نکل آئیں گی اور یہ گل سٹر جائے گا۔
بہر حال یہ اللہ کی قدرت ہے جسے چاہتا ہے جتنی چاہتا ہے عقل سلیم عطا کرتا ہے۔ اور اس تحقیق سے قرآن کی حقانیت بھی واضح ہوتی ہے جس کی خبر آج سے کم و بیش چودہ سو برس پہلے ہی انسان کو اللہ تعالیٰ نے عطاء فرما دی تھی۔
0 Comments