قطر کس طرح فٹ بال ورلڈ کپ میں اسلام کی ترویج کر رہا ہے؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

قطر کس طرح فٹ بال ورلڈ کپ میں اسلام کی ترویج کر رہا ہے؟

اپنے اقدامات سے مسلم اور عرب شناخت کا اظہار کرنے والے قطر نے فٹ بال ورلڈ کپ کو عالمی مقابلے دیکھنے کے لیے آنے والے لاکھوں تماشائیوں کے اسلام سے متعلق تصورات تبدیل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال قطر فٹ بال کی میزبانی کرنے والا پہلا مسلمان ملک ہے۔ یہاں انتہائی خوب صورت مساجد تعمیر کی گئی ہیں جو فٹ بال ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والوں کی توجہ بھی حاصل کر رہی ہیں۔ کینیڈا سے ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والے ڈورنیل اور کلارا پوپا کا جوڑا بھی ان ہزاروں شائقین میں شامل ہیں جو ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے قطر آئے ہیں اور یہاں اسلام کے بارے میں پہلی بار انہیں بہت کچھ جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ دونوں دوحہ میں بنائے گئے ایک ثقافتی ڈسٹرکٹ ’کتارا‘ کی سیر کے لیے آئے ہوئے تھے اور انہوں نے یہاں قائم جامع مسجد سے آنے والی اذان کی آواز سنی تو وہ مسجد دیکھنے کے لیے گئے۔

یہ مسجد سلطنتِ عثمانیہ کے دور کے طرزِ تعمیر پر بنائی گئی ہے اور اسی وجہ سے اسے ’بلیو ماسک‘ یعنی نیلی مسجد کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں ان کی رہنمائی کے لیے ایک گائیڈ موجود ہے جس نے انہیں مسجد کے طرزِ تعمیر کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ ان دونوں کے لیے اسلام کو قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقعہ تھا جس پر 54 سالہ ڈورنیل پوپا کا، جو پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہیں، کہنا تھا کہ ہم قریب سے دیکھنے کا موقعہ نہ ملنے کی وجہ سے اس ثقافت اور اس کے لوگوں کے بارے میں تعصب رکھتے تھے۔  پوپا کی 54 سالہ اہلیہ کلارا ڈاکٹر ہیں اور قطر آنے کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے دماغ میں کئی خیالات تھے جن میں ممکن ہے بعض تبدیل ہو جائیں۔ قطر گیسٹ سینٹر اس مسجد کے انتطامات کی نگرانی کرتا ہے۔ اس مرکز نے دنیا بھر سے درجنوں مسلمان مبلغین کو قطر میں جمع کیا ہے۔

اس کے علاوہ مسجد کے باہر سیاحوں کو عربی قہوے اور کھجوروں کے ساتھ مختلف زبانوں میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے متعلق کتابچے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس مرکز کے لیے کام کرنے والے ایک شامی رضا کار زید فتح کا کہنا تھا کہ ورلڈکپ لاکھوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرانے اور اس کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی ’غلط فہمیوں‘ کو دور کرنے کا سنہری موقع ہے۔ زید فتح نے بتایا کہ مسجد اور کتارا مرکز آنے والے لوگوں کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات، خاندانی رشتوں کی اہمیت، پڑوسیوں اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سلوک کے متعلق احکامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ مسجد کے قریب ہی ایک خاتون رضا کار نے ایک میز بھی لگا رکھی ہے جس پر ایک تختی لگی ہوئی ہے اور اس پر لکھا ہے ’مجھ سے قطر کے بارے میں پوچھیے‘۔ جو لوگ بھی یہاں رکتے ہیں انہیں عربی قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطینی رضا کار سمیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے اکثر سیاح پردے، ایک سے زائد سے شادیوں اور اسلام میں خواتین سے سلوک کے بارے میں سوالات کرتے ہیں۔  

اسلام میں خوشی
ثقافتی مرکز کے تحت بنائے گئے پرل ڈسٹرکٹ میں انتہائی مہنگے کیفے اور ریستوران بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر اچھے اخلاق کے بارے میں پیغمبرِ اسلام کی احادیث خطاطی کی صورت میں درج کی گئی ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بھی اسلام کی ترویج پر مبنی اشتہارات آویزاں ہیں۔ سوق واقف نامی مارکیٹ میں روزانہ ہزاروں فٹ بال شائقین جمع ہوتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں ان کے لیے مفت کتابیں اور پمفلٹ رکھے گئے ہیں۔ جہاں یہ مواد رکھا گیا ہے وہاں اطلاعی بورڈز بھی لگائے ہیں جن پر درج ہے: ’’اگر آپ خوشی کی تلاش میں ہیں۔۔۔ تو وہ آپ کو اسلام میں ملے گی۔‘‘ اس مارکیٹ کے قریب ہی شیخ عبد اللہ بن زید اسلامک کلچرل سینٹر دن میں 12 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ قطر میں بعض مذہبی علما نے فٹ ورلڈ کپ کے لیے آنے والوں کو اسلام قبول کرانے کے لیے مہم کی اپیل بھی کی ہے۔ 

قطر یونیورسٹی میں شرعی قوانین کے پروفیسر اور ’وائس آف اسلام‘ نامی ریڈیو اسٹیشن کے سربراہ سلطان بن ابراہیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے موقع کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ غیر ملکی فٹ بال فینز سے ملاقاتوں میں اسلام قبول کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں میں اگر انہیں اسلام کی دعوت پیش کرنے کا مناسب موقع ملتا ہے تو وہ ملنے والوں کو تبلیغ کرتے ہیں اور ایسا نہ ہو سکے تو وہ انہیں صرف یہ بتاتے ہیں کہ وہ ان کے مہمان اور انسانیت کے رشتے سے ان کے بھائی ہیں۔ سلطان بن ابراہیم ہاشمی زور دیتے ہیں کہ اسلام میں جبراً تبدیلیٔ مذہب قابلِ قبول نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی کئی پوسٹس میں ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے قطر آنے والے سینکڑوں شائقین کے اسلام قبول کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔  

بشکریہ وائس آف امریکہ

Post a Comment

0 Comments