ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور جو گناہ ہو گئے ہیں یا آئندہ ہوں گے ان پر اِستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ اِستغفار کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی ﷲ تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگے۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِستغفار کا حکم دیا ہے اور اس کے اہم فوائد بھی بتلائے ہیں مفہوم: ’’پھر میں نے (ان سے) کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ یقیناً وہ بہت زیادہ معافی دینے والا ہے۔ (گناہوں سے معافی مانگنے پر وہ اتنا خوش ہو گا کہ) تم پر آسمان سے (فائدے والی) خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے اموال و اولاد میں (برکت والی) ترقی دے گا تمہارے لیے (انواع و اقسام کے) کے باغات پیدا فرما دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں بہا دے گا۔‘‘ (سورۃ نوح) حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ حدیث قدسی ارشاد فرماتے ہیں، جس میں ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں خطاب فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے (یعنی میں ظلم سے پاک ہوں) جب میں نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو اسی طرح تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
اے میرے بندو! جس کو میں (اپنی توفیق سے) ہدایت عطا فرما دوں اس کے علاوہ تم سب گم راہ ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت (کی توفیق) مانگو۔ میں ہی تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے فضل سے ) روزی دوں اس کے علاوہ تم سب بھوکے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے فضل کو طلب کرتے ہوئے) روزی کا سوال کرو میں ہی تمہیں روزی دوں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے کرم سے) لباس پہناؤں اس کے علاوہ سب ننگے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے کرم کی امید رکھتے ہوئے) لباس مانگو میں ہی تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمہارے گناہ معاف کرتا ہوں اس لیے مجھ ہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو میں ہی تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی مجھے نفع دے سکتے (یعنی تمہارے گناہوں سے مجھے نقصان نہیں اور تمہاری نیکیوں سے مجھے فائدہ نہیں بل کہ گناہ اور نیکی کا نقصان اور نفع صرف اور صرف تمہارے لیے ہے) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت پرہیز گار دل کی طرح بن جاؤ تو اس سے میری مملکت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت بدکار دل کی طرح بن جاؤ تب بھی میری مملکت میں کسی ادنی سی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر کسی میدان میں کھڑے ہو جائیں اور پھر مجھ سے (اپنی زبان میں اپنی ساری ضروریات) مانگیں اور میں ہر ایک کی اس کی تمام ضروریات دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی کہ سمندر میں سوئی گرنے سے پانی کے کم ہونے کی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ میں تمہارے اعمال کو یاد رکھتا ہوں اور انہیں (تمہارے حق میں اتمام حجت کے طور پر) لکھوا لیتا ہوں۔ میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا اس لیے جو شخص بھلائی پا لے اسے چاہیے کہ وہ مجھ ﷲ کی حمد و شکر ادا کرے اور جس شخص کو بھلائی کے بہ جائے برائی ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیوں کہ (بعض دفعہ) یہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (بہ حوالہ: صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کوئی مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی وجہ سے ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے اگر وہ اس گناہ سے توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کے دل سے سیاہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ توبہ کے بہ جائے مزید گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مزید بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ہرگز ایسا نہیں بل کہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان چیزوں کا جو وہ برے اعمال کرتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی) حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں، میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے آدم کی اولاد! جب تک تو مجھ سے امید رکھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر (بالفرض) تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے ان کی معافی مانگے تو میں معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر تو مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تیرے نامہ اعمال میں اتنے گناہ ہوں جن سے زمین بھر جاتی ہے تو تیری توبہ و استغفار کی وجہ سے میں بھی تجھے اتنا ثواب عطا کروں گا کہ جن سے زمین بھر جائے گی بہ شرط یہ کہ تُونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ (جامع الترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص استغفار کی عادت بنا لے ﷲ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے (حلال اور وسعت والا) رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر علماء بنی اسرائیل سے یہ پوچھنے کے لیے چل پڑا کہ اتنے بڑے گناہ یا گناہ گار کے لیے توبہ کے قبول ہونے کوئی صورت ہے؟ ایک عابد و زاہد شخص نے اس کو جواب دیا کہ نہیں توبہ کے قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ اس شخص نے اس عابد و زاہد کو بھی مار ڈالا۔ پھر باقی علماء سے پوچھنے کے لیے چل نکلا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ تم فلاں بستی میں جاؤ وہ نیک لوگوں کی بستی ہے اور وہاں فلاں عالم رہتے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو وہ تمہیں توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں ٹھیک فتویٰ دے گا۔
وہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچ پایا تھا کہ اچانک ملک الموت آ پہنچے اس کو جب مرنے کی علامات محسوس ہوئیں تو اس نے اپنا سینہ اسی بستی کی طرف جھکا کر گر پڑا۔ چناںچہ اس کی روح نکالنے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے ملک الموت سے ایک طرح کا جھگڑا کرنے لگے۔ اسی دوران ﷲ تعالیٰ نے اس بستی (جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کے قریب ہو جائے اور اس بستی (جہاں سے قتل والا گناہ کر کے آ رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس سے دور ہو جائے۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ کہ تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر وہ اس بستی کے قریب جس کی طرف وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے۔ فرشتوں نے جب پیمائش کی تو وہ اس بستی کے قریب تھا جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا وہ بہ نسبت دوسری بستی کے ایک بالشت قریب تھا چناں چہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص قابل مبارک باد ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرماتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے کہ اے ﷲ! مجھے یہ درجہ کیسے نصیب ہوا؟ (حالاں کہ میں نے تو ایسی نیکی نہیں کی) ﷲ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ تیرے لیے تیری اولاد نے استغفار کیا ہے اس لیے میں نے تیرا ایک درجہ جنت میں مزید بلند کر دیا ہے۔ (سنن ابن ماجۃ) ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اگر گناہ ہو جائیں تو ان پر استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
0 Comments