ہم مسجد سے دور کیوں ہو گئے؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

ہم مسجد سے دور کیوں ہو گئے؟

کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم مسجدوں سے دور کیوں ہو گئے؟ علی کی عمر چارسال ہے۔ میرے گھر کا آنگن بہنوں کے ساتھ اس کی شرارتوں سے مہک رہا ہے۔ہمارے گھر کے قریب ہی ایک مسجد ہے۔ جو قاری صاحب گھر پر بچوں کو قرآن پڑھانے تشریف لاتے ہیں وہی اس کے امام ہیں۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہا تھا کہ علی مسجد میں دل چسپی لینے لگا ہے۔ ہم سامنے سے گزر رہے ہوتے تو وہ رک جاتا اور اس کی متجسس نگاہیں مسجد کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگتیں۔ ایک دو دن کے بعد اس کا تجسس سوال میں ڈھلنے لگا : مسجد کیا ہوتی ہے؟ یہاں کون رہتا ہے؟ اسے بتایا کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ اگر یہ اللہ کا گھر ہے اور لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں تو آپ نماز پڑھنے مسجد کیوں نہیں جاتے؟ اذان کی آواز آتی تو وہ میرے پاس آ کھڑا ہوتا کہ اذان ہو رہی ہے آپ مسجد کیوں نہیں جاتے۔ آپ گھر میں نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نماز پڑھنے مسجد کیوں نہیں جاتے؟ اس تکرار کے ساتھ اس نے سوال اٹھایا کہ مجھے مسجد جانا ہی پڑا۔

چند روز گزرے تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ اب وہ بھی مسجد جائے گا۔ میں اسے مطالعاتی دورے پر مسجد لے گیا اور اسے دکھا لایا کہ مسجد ایسی ہوتی ہے۔لیکن اس کا کہنا تھا کہ اسے صرف مسجد نہیں جانا اسے وہاں جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز بھی پڑھنا ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ کل شام آپ کو بھی مسجد لے جائوں گا۔ عروہ تو اب سمجھدار ہو چکی ہے لیکن عائشہ جو ابھی کلاس ٹو کی طالبہ ہے اور ہمارے گھر کی تحریک انصاف ہے اس نے تحریک انصاف کے مخصوص اندازمیں فیصلہ سنا دیا کہ صرف علی کیوں جائے گا وہ بھی ساتھ جائے گی۔ اس کے پاس ایک دلیل بھی تھی: ’’یا تو مسجد علی کا گھر ہو تو پھر صرف علی جائے۔ جب مسجد اللہ کا گھر ہے تو پھر صرف علی کیوں جائے۔ میں بھی جائوں گی۔ جب اللہ صرف علی کا نہیں سب کا ہے تو اس کے گھر صرف علی کیوں جائے گاــ‘‘۔اب اس سوال کا میرے پاس تو کیا میرے پورے معاشرے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ اللہ کے گھر کے دروازے لڑکیوں اور عورتوں پر کیوں بند ہیں اور روایات کو مذہب پر فوقیت کس نے دے رکھی ہے؟ بے شک عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے لیکن رسالت مآب ﷺ کا یہ فرمان ہمیں کیوں بھول گیا کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے سے مت روکو۔

خیر عائشہ کو مطمئن کر کے میں علی کو ساتھ لے کر مسجد پہنچا۔ جماعت کھڑی ہونے میں ابھی وقت تھا۔علی بہت خوش تھا۔ مسجد پہنچ کر اس نے کہا کہ مجھے تو نماز پڑھنی ہی نہیں آتی میں کیسے نماز پڑھوں گا۔ پھر خود ہی اس نے حل نکال لیا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائوں گا اور جیسے آپ پڑھتے جائیں گے ویسے ہی میں بھی پڑھتا جائوں گا۔ لیجیے صاحب نماز کھڑی ہو گئی۔ علی میرے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ابھی پہلی رکعت ہی جاری تھی کہ ایک صاحب تشریف لائے، انہوں نے علی کو پکڑ کر پرے کر دیا اور خود میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے، انہوں نے اسے مزید پرے دھکیل دیا اور اس کی جگہ پر خود کھڑے ہو گئے۔ پہلی ہی رکعت میں ایک اور صاحب تشریف لائے اور انہوں نے علی کو مزید پرے دھکیل کر اس کی جگہ پر قبضہ فرما لیا۔ پھر غالبا ایک اور صاحب آئے اور انہوں نے اسے مزید پرے دھکیل دیا۔ نماز ختم ہوئی تو میں نے علی کو اپنے پاس بلایا۔ اس کی آنکھوں میں شوق، خوشی اور تجسس کی جگہ اب پریشانی اور دکھ تھا۔آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ اس تجربے کے بعد آئندہ وہ مسجد کا رخ نہیں کرے گا۔

میرے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ یہ ایک نوجوان تھے۔ مجھے ان پر شدید غصہ تھا لیکن آداب مسجد مانع تھے۔ میں نے ان سے عرض کی کہ آپ کس جماعت کے خدائی فوجدار ہیں۔ کہیں آپ صالحین میں سے تو نہیں جو ساری دنیا میں اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں ہیں۔ نوجوان گڑ بڑا گیا۔ وہ جمعیت ہی سے تھا۔ اس نے شائستگی سے کہا : سر کوئی غلطی ہو گئی ہے؟اس کے لہجے کی شائستگی نے میرا آدھاغصہ ختم کر دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس بچے کو میں مسجد نہیں لایا تھا۔ یہ بچہ مجھے مسجد لایا تھا۔ آپ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تب بھی آپ کی نماز ہو جانی تھی۔ لیکن آپ سے آپ کا زعم تقوی نہیں سنبھالا جا رہا تھا آپ نے اس کو پرے دھکیل دیا۔ ساتھ والے صاحب آپ سے بھی زیادہ نیک تھے انہوں نے اسے اور پرے دھکیل دیا۔ اس کے بعد ایک صاحب تشریف آئے، ان کا خیال تھا وہ آپ دونوں سے زیادہ پارسا ہیں، انہوں نے اسے اور پرے دھکیل دیا۔یہ بچہ شوق سے مسجد آیا تھا، اس نے آئندہ بھی آنا تھا لیکن آج کے واقعے کے بعد یہ مسجد نہیں آئے گا۔ آپ اپنے تقوی کی روشنی میں میری رہنمائی فرما دیجیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟

خیریت گزری کہ تینوں حضرات نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور معذرت کر لی۔ لیکن اس دن کے بعد سے آج تک علی نے مسجد کا نام نہیں لیا۔ اس نے ایک دفعہ نہیں کہا کہ اسے مسجد جانا ہے۔ جو بچہ ابھی انگلی پکڑ کر چلتا ہو اس کو آپ کا زعم تقوی دھکیل کر اس کے باپ سے دور ایک کونے میں کھڑا کر دے تو اس عمر میں اس کے لیے اس سے خوفناک تجربہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ دوبارہ اس تجربے سے کیوں گزرے؟ یہ قریب قریب ہر مسجد کی کہانی ہے۔ بچوں کے ساتھ نفرت، حقارت اور رعونت سے برتائو کیا جاتا ہے۔ جدید تہذیب کی یلغار نے پہلے ہی لوگوں کو مسجد سے دور کر دیا ہے جو تھوڑے بہت اس سے وابستہ رہ گئے ہیں ان کا بچوں سے سلوک اتنا توہین آمیز ہے کہ اس کے بعد بچوں کے لیے مسجد کا رخ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آ ج کے یہ بچے کسی پارک ، کسی شاپنگ مال ، سکول جہاں کہیں بھی جاتے ہیں انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن یہ مسجد چلے جائیں تو ان کی توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں یوں بھگایا جاتا ہے جیسے شیطان آ گیا ہو جو اہل تقوی کی عبادات میں خلل ڈال دے گا۔

آج مسجد میں بچوں کا وجود آپ کو برداشت نہیں تو آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کل یہ جوان ہو کر مسجد کا رخ کریں گے؟ تاریخ اسلام ہمارے سامنے ہے۔ خود رحمت دو جہاں ﷺ سجدے میں تھے اور نواسہ رسول اوپر بیٹھ گئے تو آپ ﷺ نے سجدہ طویل کر دیا۔ نہ خفا ہوئے نہ ڈانٹا۔ سراپا محبت۔ سراپا شفقت۔ ذرا بخاری اور مسلم کو کھول کر پڑھیے تو سہی کہ آقائے دو جہاں ﷺ کی گود میں جب امامہ بنت زینب ؓ آ کر بیٹھ جاتیں تو آپ کی نماز کا عالم کیا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ مسجد میں سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسین ؓ تشریف لائے۔ نئے کپڑے پہن رکھے تھے اور پھسل گئے۔ آپ ﷺ نے خطبہ روک دیا ، منبر سے اترے انہیں گود میں لے لیا اور پھر واپس منبر پر تشریف لے گئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو مساجد سے مانوس کرنا ہو گا اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے اپنے زعم تقوی کو گھر چھوڑ کر آیا کریں۔ عاجزی اور محبت سے مسجد کا رخ کیا کریں۔ ہمارے بزرگ خدا جانے ہر وقت جلال میں کیوں ہوتے ہیں۔ ان کا رویہ جلادوں بلکہ دجالوں والا ہوتا ہے ۔ سریل ، سنکی اور انسان بے زار۔

میں نے مسجد میں بچوں کو ڈانٹ کھاتے ہی دیکھا ہے۔ حالانکہ انہیں پیار سے بھی بہت کچھ سمجھایا جا سکتا ہے۔ بچے تو بچے ہیں۔ انہیں گنجائش دینا ہو گی۔ ہمارے ہاں اکثر عالم یہ ہوتا ہے کہ ریٹائرڈ بزرگان نے محلے کی مساجد میں کرفیو نافذ کر رکھا ہوتا ہے اور بچوں کا داخلہ ممنوع اور ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ چنانچہ مساجد خالی ہوتی جا رہی ہیں اور ہمارے شکوے بڑھتے جا رہے ہیں کہ نوجوان دین سے دور ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم اپنے رویے بدلنے کو تیار ہیں؟

آصف محمود  

Post a Comment

0 Comments