شکوک و شبہات والے دل میں وسوسے پیدا نہیں ہوتے۔ وسوسے ایمان والے دلوں میں آتے ہیں اس لیے کبھی ایسے خیالات دل میں آئیں تو سمجھ جائیں کہ ایمان کی علامت ہے۔ شیطان اس وسوسے کے ذریعے مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ تم اتنی بری بری باتیں سوچتے ہو اس وقت ان خیالات کو جھٹک دینا چاہیئے۔ کیونکہ شکوک و شبہات سیدھے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الایمان" میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "تِلْكَ مَحْضُ الْإِيْمَانِ" "یہی تو خالص ایمان ہے" یعنی وسوسے کا آنا ایمان کی علامت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان سوچے کہ میرے دل میں وسوسے نہیں آتے تو میرا ایمان ہی نہیں ہے۔
یعنی ضروری نہیں کہ وسوسے آئیں۔۔۔، لیکن اگر آئیں تو پریشان نہ ہوں۔ کیونکہ وسوسے کے اوپر پکڑ نہیں جب تک کہ وہ زبان پر نہ آجائے۔ اگر کوئی شخص اپنے دل کے وسوسوں کو زبان پر لے آتا ہے تو پھر اس پہ پکڑ ہے۔ لہذا برے وسوسوں کو زبان پر نہیں لانا چاہیئے اس طرح کوئی آپ کو اپنے وسوسے بتانا چاہتا ہے تو ہر گز نہ سنیں بلکہ بتانے سے منع کر دیں۔ •۔ شیطان برے وسوسے ڈال کر آپ کو غمگین ، پریشان اور اداس کرنا چاہتا ہے۔ •۔ آپ کے ذہن کو منتشر کرنا چاہتا ہے۔ •۔ نیکی کے کاموں سے آپ کا فوکس ہٹانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالٰی شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہمیں یہ دعا سکھاتے یے قل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین۔و اعوذبک رب ایحضرون شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی: اَعُوْذُ بِاللہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ. یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کے دل کے اوپر تھتھکارنا چاہیئے۔ اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور وسوسے نہیں آئیں گے۔ اس طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ وسوسوں سے بچنے کے لیے انسان اَمَنْتُ بِاللہِ پڑھے۔ اور پھر اللہُ اَحَدٌ ، اَللہُ الصَّمَدُ پڑھے یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدُ ۔ کثرت سے پڑھنا شروع کر دے۔ شیطان کا حملہ اس لیے ہوتا ہے تاکہ اس بندے کا ایمان کمزور کیا جائے۔
•۔ اس لیے ایسے خیالات کو جھٹک کر شیطان مردود سے پناہ مانگی جائے۔ •۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف رغبت کی جائے۔ •۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے۔
0 Comments