آج کا دن اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش دن ہے۔ آج اس واقعہ کو پورے سات سو ساٹھ سال گزر چکے ہیں۔ سقوطِ بغداد کے دو سال پانچ ماہ اور تئیس دن بعد یہ معرکہ ہوا۔ یہ صرف ایک جنگ نہ تھی۔ اس روز سقوطِ بغداد کے بعد زوال پذیر رہی سہی اسلامی دنیا کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ہونے والا تھا۔ پورا چین، آدھا روس بشمول ماسکو اور سائبیریا، موجودہ وسط ایشیائی ریاستیں (ترکمانستان، ازبکستان، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان) آدھے سے زیادہ افغانستان اور ایران، سارا عراق اور ترکی و شام کا بہت سا علاقہ منگولیا سے بگولے کی مانند اٹھنے والے چنگیز خان کی منگول سلطنت کا حصہ تھا۔ سلطنت روم کے سلجوق حکمران غیاث الدین کیخسرو دوم کو 1243 میں کوسے داگ کی جنگ میں فیصلہ کن شکست ہو چکی تھی۔ اس کی ریاست منگولوں کی باجگزار تھی اور سالانہ خراج ادا کر کے اپنی نام نہاد حیثیت برقرار رکھے ہوئے تھی۔
جزیرہ نما عرب صحرائی علاقہ تھا اور منگولوں کو یہاں سے کسی قسم کی آمدنی، محصول، لوٹ مار اور دولت کی توقع نہیں تھی اس لیے یہ ان کی دستبرد سے محفوظ تھا۔ آخری مسلم ریاست صرف مصر تھی جو ان برے ترین حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنی ریاستی شکل میں موجود تھی۔ مصر پر تب مملوک حکومت تھی۔ مصر کا سلطان سیف الدین قطز اور افواج کا سپہ سالار رکن الدین بیبرس تھا۔ تقریباً ساری مسلم دنیا‘ جو تب جزیرہ نما عرب، عراق، شام، فلسطین، ترکی، مصر، لیبیا، تیونس، ایران، جارجیا، آذربائیجان، آرمینیا، ازبکستان اور افغانستان کے علاوہ موجودہ پاکستان کے مغربی علاقوں (سندھ اور بلوچستان) پر مشتمل تھی‘ پر عباسی خلفاء کی حکمرانی تھی‘ لیکن سلطنت آہستہ آہستہ بدنظمی، نااہلی، طوائف الملوکی کا شکار ہو چکی تھی اور عوام مناظروں اور مباحثوں میں مصروف رہتے تھے۔
مباحثے بھی کیا تھے؟ کوا حلال ہے یا حرام؟ اور اسی قسم کی فروعی بحثیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ تب کی مسلم دنیا کی حالت عین وہی تھی جو آج کل ہے‘ صرف مباحث کے موضوع بدل گئے ہیں اور عالمی بدمعاشوں کی شکل تبدیل ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہلاکو خان کی سربراہی میں وحشیوں کا ایک لشکر ملکوں اور شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجاتا، سروں کے مینار بناتا، شہروں کو جلا کر خاکستر کرتا اور علم و ادب کے ذخیرے تباہ و برباد کرتا بغداد کی جانب بڑھ رہا تھا‘ لیکن عباسی خلیفہ المستعصم باللہ بن المستنصر باللہ دربار میں راگ رنگ، شعروشاعری، مناظروں اور مباحثوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ پھر ہلاکو خان کے لشکر نے بغداد کو بھی آ لیا اور عباسی حکمران کو ذلیل و رسوا کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کتب خانے جلا کر راکھ کر دیئے، شہر کو کھنڈر بنا دیا، مناظروں میں مصروف عالموں کو قتل کر دیا اور خلافت کا خاتمہ کر دیا۔
محاصرے سے لیکر سقوط تک، بغداد کو شہر سے کھنڈر بننے میں کل تیرہ دن لگے۔ اس کے بعد صرف مصر کی مملوک حکومت تھی جو قائم تھی؛ تاہم عباسی سلطنت کے سامنے سیف الدین قطز کی یہ ریاست بہت معمولی اور کمزور دکھائی دیتی تھی مگر ریاستیں، رقبے کی وسعت، آبادی کی کثرت یا حکمرانوں کے خزانے میں پڑی دولت اور تاج میں سجے جواہرات کی تعداد سے نہیں، ہمت و شجاعت سے اپنا وجود منواتی ہیں۔ مصر کی مملوک حکومت نے اپنا وجود بھی اسی شجاعت سے منوایا۔ ہلاکو خان نے اپنا ایک وفد مصر بھیجا جو جا کر مملوک سلطان سیف الدین قطز سے ملا، اسے ہلاکو خان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے اور مصر کو منگول لشکر کے حوالے کرنے کا کہا۔ جواب میں قطز نے ہلاکو کے وفد کو قتل کروایا اور ان کے سر قاہرہ کے شہر کے دروازے پر لٹکا دیئے۔
ہلاکو نے اپنے شہرہ آفاق جنرل قط بوغا کی سربراہی میں ایک لشکر مصر کی جانب روانہ کیا۔ منگول لشکر نے آگے بڑھ کر فلسطین کے شہر سیدون پر قبضہ کیا اور اپنی فوجوں کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔ اسی دوران منگولوں کے حلیف جارجیا اور آرمینیا کے عیسائی حکمرانوں نے بھی اپنی افواج قط بوغا کی سپہ سالاری میں جنگ کے لیے بھجوا دیں۔ مملوک افواج مصر سے نکلیں اور سیدون میں قابض منگول افواج کی جانب چل پڑیں۔ جنگ کا سارا نقشہ رکن الدین بیبرس نے ترتیب دیا۔ یہ 'مارو اور بھاگ جائو‘ پر مشتمل تھا۔ دونوں افواج کا آمنا سامنا موجودہ اسرائیل کے شہر گلیلی کے مضافات میں جزریل نزارتھ کے قریب عین جالوت کے مقام پر ہوا۔ اسی حوالے سے تاریخ میں یہ معرکہ عین جالوت کہلاتا ہے۔ یہ آج کے روز مورخہ 3 ستمبر 1260 بمطابق 25 رمضان المبارک 658 ہجری کے دن وقوع پذیر ہوا۔
رکن الدین بیبرس نے چھاپہ مار دستوں کے ساتھ 'مارو اور بھاگ جائو‘ کے جنگی منصوبہ کے تحت منگول لشکر پر حملے شروع کر دیئے۔ منگولوں کا جنگی حربہ یہ تھا کہ لڑتے لڑتے پیچھے ہٹتے جاتے اور مخالف لشکر کو آہستہ آہستہ اس جگہ لے آتے تھے جہاں ان کے تیر انداز اور گھڑ سوار فوجی دستے پوشیدہ ہوتے ‘ اور تب وہ فتح کے زعم میں آگے بڑھتے ہوئے مخالف لشکر پر دونوں اطراف سے حملہ کر دیتے تھے اور اس طرح وہ ان میں مچنے والی بھگدڑ، بے ترتیبی اور سراسیمگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس پلٹ کر وحشیانہ طریقے سے زوردار حملہ کرتے اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ اس بار بیبرس نے انہی کے حربے کو انہی پر آزمانے کا منصوبہ بنایا۔ قط بوغا بیبرس کے چھپ کر کیے جانے والے حملوں سے تنگ آ چکا تھا اور اس کے غیظ و غضب کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اسی اثنا میں بیبرس نے ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ منگول لشکر پر حملہ کر دیا۔
بیبرس کا اصل لشکر پیچھے پہاڑوں پر واقع جنگل میں چھپا ہوا تھا۔ اس لشکر کی پہلی صف تیر اندازوں اور دوسری صف تلواروں اور نیزوں سے لیس سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ گوریلا حملوں سے غیظ و غضب کا شکار قط بوغا سامنے آنے والی مختصر سی فوج پر ٹوٹ پڑا اور انہیں رگیدتا ہوا پیچھے پہاڑوں کی جانب بڑھتا گیا۔ جونہی وہ چھپی ہوئی فوج کے قریب پہنچا دائیں اور بائیں سے شدید حملہ ہوا‘ پہلے تیر اندازوں نے تباہی مچائی اور پھر لشکریوں نے۔ قط بوغا نے بائیں طرف سے حملہ کرنے والوں کو پوری شدت سے پیچھے دھکیلا اور پھر ان پر ٹوٹ پڑا۔ میسرہ پر دبائو بڑھا تو میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے سیف الدین قطز نے اپنا آہنی خود اتار پھینکا تاکہ اس کے سپاہی اس کو شکل سے پہچان سکیں۔ پھر اس نے 'واسلامہ‘ کا نعرہ لگایا اور منگول فوج کے وسط پر حملہ کر دیا۔
میمنہ کی جانب سے زوردار حملہ ہوا۔ اسی اثنا میں پسپا ہو کر جاتا ہوا ممکوک لشکر رکن الدین بیبرس کی سربراہی میں پلٹا اور منگولوں پر ٹوٹ پڑا۔ بے شمار منگول قتل ہوئے۔ قط بوغا میدان جنگ میں مارا گیا۔ بیبرس نے فرار ہوتے منگولوں کا پیچھا کیا اور انکا قتل عام جاری رکھا۔ چند روز بعد میدان جنگ سے بھاگے ہوئے شکست خوردہ باقی ماندہ منگول لشکر کو بیسان میں جا گھیرا اور فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ پانچ روز بعد ایوبی سلطنت کے مقبوضہ شہر دمشق کو منگولوں سے آزاد کروایا اور ایک ماہ بعد حلب کو واپس حاصل کر لیا۔ معرکہ عین جالوت منگولوں کی پہلی شکست تھی جس نے نہ صرف مسلم دنیا کا نقشہ دوبارہ سے بدل دیا بلکہ منگولوں کی عالمی یلغار کو اس شکست سے ایسی بریک لگی کہ وہ دوبارہ سنبھل نہ پائے‘ پھر پے در پے شکستیں انکا مقدر بن گئیں۔
پہلے حمص‘ پھر کاکیشیا میں منگولوں کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں کی سب فتوحات اور منگولوں کی شکستیں صرف عین جالوت کے معرکے کا ثمر تھیں۔ آج کسے یاد ہے کہ رکن الدین بیبرس کون تھا؟ عین جالوت کی ہماری تاریخ میں کیا اہمیت ہے؟ اس وقت عالم اسلام کو امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑ سے اسی صورتحال کا سامنا ہے جو منگولوں کے زمانے میں مسلمانوں کو تھا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج عالم اسلام مستعصم باللہ کا دربار ہے‘ اور اس پر ستم یہ کہ پورے عالم اسلام میں کوئی رکن الدین بیبرس موجود نہیں ہے۔
0 Comments