رب العالمین کا فرمان ہے کہ ’’قتل الانسان ما اکفرہ‘‘ ترجمہ: ’’اللہ کی مار انسان پر، کیسا ناشکرا ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بے شمار نعمتوں کے مالک ہیں اور اکثر نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سوں کے تو ہم لائق ہی نہیں ہیں، لیکن انسان میں بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے جسے ’’ناشکری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سی حاصل شدہ نعمتوں کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حاصل شدہ نعمتوں میں بہت سی ایسی ہیں جن کے لیے انسان اپنی زندگی کے ایک دور تک ہمیشہ آرزو مند رہتا ہے، گڑگڑا کر دعائیں کرتا ہے، خیالات، سوچ، فکر، امنگ، چاہت اور احساس سب اس نعمت کے حصول کے گرد گھومتے تھے۔ جان بوجھ کر ایسا سوچتا تھا کہ اس نعمت کے حاصل ہونے کے بعد کا منظر کیسا ہو گا، وہ کیسا وقت ہو گا اور لوگ نجانے کیا کچھ کہیں گے، بس زندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا، پھر بس کچھ چاہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ کاش یہ ہو جائے، کاش یہ مل جائے، کاش یہ اب مل ہی جائے۔
لیکن پھر وہ وقت زندگی میں آہی جاتا ہے اور دیر سویر وہ نعمت مل ہی جاتی ہے اور اس ناشکرے کمزور انسان کی خواہش، تمنا، آرزو پوری ہو جاتی ہے۔ قدرت بھی یہ منظر دیکھنے کو آجاتی ہے کہ دیکھیں اب اس کا ردعمل کیا آتا ہے، اب یقیناً یہ چین و سکون اور اطمینان سے رہ رہا ہو گا، اب تو یہ شکر کے گیت گاتا ہو گا لیکن انسان قرآنی گواہی کو سچا ثابت کرتے ہوئے اس موقع پر پھر سے افسردہ، حیران و پریشان خیالوں میں غرق ہوتا نظر آتا ہے۔ اور اسے جھنجھوڑ کر جب پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی اور نعمت کے حاصل کرنے کی تمنا میں مگن ہو کر اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔ سورۃ عادیات میں رب کا فرمان ہے ’’ان الانسان لربہ لکنود‘‘ ترجمہ: ’’ بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں لفظ ’’کنود‘‘‘ سے مراد یہی انسان ہے جو حاصل نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور لاحاصل نعمتوں کی یاد میں زندگی گزارتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی ناقدرے کو کتنا ہی قیمتی تحفہ کیوں نہ دیا جائے وہ اس کی نظر میں بے قیمت ہی رہتا ہے۔ بالکل یہی رویہ انسان کا ہے۔ یہ رب کی بہت سی نعمتوں کے لائق ہی نہیں ہے، لیکن رب العالمین اپنے فضل کی بارش کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ انسان قدردان ہوتا تو فضلِ الٰہی کے ایک ایک لمحے کے بدل اپنا سب کچھ وار دیتا۔ یہ اس کی ناشکری طبیعت ہی ہے جو اسے فضل عظیم کرنے والی ذات کی قدر سے روکے ہوئے ہے۔ حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی تمنا انسان کو بہت بڑے دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ وہ غوروفکر کرنا گوارا نہیں کرتا کہ اس کے پاس اس وقت کیا کچھ نعمتیں موجود ہیں، وہ اپنی پرستش میں ایسا گم ہے کہ اسے کوئی اور نظر نہیں آتا۔ ذرا شکر کی آنکھ کھلے تو یہ دیکھے کتنے لوگ بے اولاد ہیں لیکن یہ صاحب اولاد ہے۔ کتنے بے روزگار ہیں لیکن یہ برسر روزگار ہے۔ کتنے بے گھر ہیں لیکن یہ ایک چھت تلے زندگی گزار رہا ہے۔ کتنے معذور ہیں اور یہ دنیا کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھکتا نہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو آنکھ، بال، دل، گردہ، گلا، مثانہ، معدہ، کینسر اور کئی خطرناک اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن یہ صحت کی دولت لیے گھوم پھر رہا ہے۔
کتنے ایسے ہیں کہ مرچکے لیکن یہ اب تک قیمتی سانسوں کا مالک ہے اور اب بھی شکر کر کے اپنے لیے کیا سے کیا نہیں کر سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صحبت، اپنی سوچ اور اپنے رویے کا ازسرنو جائزہ لیں اور ذرا سوچیں کہ کیا کچھ ہے میرے پاس جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر انسان اس تجربے سے کامیاب گزرا تو زندگی کا مزہ ہی دوبالا ہو جائے اور بہت سے لایعنی مسائل اس تحریر کے مکمل پڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں گے۔
0 Comments