محرم الحرام کے روزے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

محرم الحرام کے روزے

محرم الحرام، چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اس کی حرمت کا تقاضا
ہے کہ اللہ اور اُس کے پیارے رسولؐ کے احکامات کو مان کر آدمی محترم بنے، مخالفت کر کے مجرم نہ بنے، جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو ماہِ محرم کا خصوصی احترام کرنا چاہئے اور حتی الامکان اس میں گناہوں اور جنگ وجدال سے اجتناب کرنا چاہئے۔۔۔ اس مہینے کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اسے رسول اللہؐ نے اللہ کا مہینہ کہا ہے اور اس ماہ کے روزوں کی اور خاص طورپر عاشوراء کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (یعنی تہجد کی نماز) ہے۔ (رواہ مسلم)
سنن ابوداود اور سنن الدارمی میں نعمان بن سعد سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا کہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: مَیں نے ایک آدمی کے سوا کسی کو اس بارے میں سوال کرتے نہیں سُنا اس شخص کو مَیں نے رسول اللہؐ سے دریافت کرتے ہوئے سُنا اس حال میں کہ مَیں رسول اللہ ؐکے پاس بیٹھا ہوا تھا اُس نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ماہِ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر رمضان کے بعد روزے رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔۔۔ یہ تو اس ماہ کے عمومی روزوں کی فضیلت ہوئی، مگر خاص طور سے عاشوراء کے روزوں کی اور زیادہ فضیلت ہے ان سے ایک سال گزشتہ کے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ سیدنا قتادہؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشوراء کے روزوں کی وجہ سے وہ ایک سال گزشتہ کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ (مسلم)

سیدنا ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ کو مَیں نے عاشوراء کے روزوں اور رمضان کے روزوں کے علاوہ فضیلت کے کسی دن کے روزے کا اتنا اہتمام کرتے نہیں دیکھا۔ (متفق علیہ)۔۔۔ آپ ؐ کے ان روزوں کے اہتمام کا حال یہ تھا کہ ہجرت سے قبل بھی آپ قریش کے ساتھ عاشوراء کے روزے رکھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: عاشوراء کے دن کا روزہ قریش جاہلیت میں رکھتے تھے اور رسول اللہ ؐ بھی ہجرت سے قبل یہ روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا پھر جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ نے اس کا (حکم دینا اور تاکید کرنا) ترک کر دیا اور جو چاہتا یہ روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ (بخاری ومسلم)

علامہ ابن قیمؒ زاد المعاد میں فرماتے ہیں: بلاشبہ قریش اس دن کی تعظیم کرتے تھے اور اسی دن کعبہ کو غلاف پہناتے تھے اور اس دن روزہ رکھنا اس کی مکمل تعظیم کی وجہ سے تھا۔۔۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: شاید قریش اس کے روزے کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیمؒ جیسے ماضی کے کسی نبی کی شریعت پر اعتماد کرتے تھے۔۔۔ بہرحال قریش یوم عاشوراء کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہؐ بھی ہجرت سے قبل اس کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں یہود کو بھی دیکھا کہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اس دن اللہ نے سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰؑ نے شکرانہ کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا اور ہم لوگ بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کی بہ نسبت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی متابعت کے زیادہ حق دار ہم لوگ ہیں‘‘۔۔۔ پھر آپؐ نے خود روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

بخاری کی بعض روایتوں میں ہے:(نَحْنُ نَصُوْمُہُ تَعْظِیْمًا) ہم اس کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہؓکی روایت میں ہے: یہی وہ دن ہے، جس میں حضرت نوحؒ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی تو انہوں نے شکر کے طور پر روزہ رکھا۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوح ؒ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس دن روزہ رکھا اور قریش ویہود بھی اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ؐ نے بھی اس کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، پھر رسول اللہ ؐ نے اس کی مزید تاکید کی اور لوگوں کو برابر اس کا حکم دیتے اور اس پر اُبھارتے رہے حتیٰ کہ سیدہ ربیع بنت معوذؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے عاشوراء کی صبح انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا کہ جو صبح سے روزہ سے ہو وہ اپنے روزہ کو مکمل کرے اور جو صبح سے روزہ سے نہ ہو وہ اس وقت سے باقی دن کا روزہ رکھے۔ اس کے بعد ہم سب لوگ اس کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔ ہم ان کے لیے اون کے رنگین کھلونے بنا کر انہیں مسجد لے جاتی تھیں اور جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے رونے لگتا تو ہم اسے یہ کھلونے دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ (البخاری ومسلم)

سیدنا جابر بن سمرہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ ہمیں یوم عاشوراء کے روزوں کا تاکیدی حکم دیتے ہمیں اس کی ترغیب دیتے ہمارا حال چال معلوم کرتے اور نصیحت فرماتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض کر دیئے گئے تو نہ آپؐ نے ہمیں اس کا پہلے کی طرح حکم دیا اور نہ منع ہی فرمایا۔ (مسلم)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی البتہ اس کا استحباب اور اس کی فضیلت برقرار رہی۔ یہی امام ابوحنیفہؓ امام احمدؒ (ایک روایت میں) امام ابن القیمؒ حافظ ابن حجرؒ اور امام مالکؒ وغیرہ کا مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔ اس کے استحباب اور فضیلت کے باقی رہنے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہؐ آخری عمر تک اس کا اہتمام فرماتے رہے۔ سیدہ حفصہؒ فرماتی ہیں: چار چیزیں رسول اللہ ؐ کبھی ترک نہیں فرماتے تھے عاشوراء کے روزے 2 عشرہ ذی الحجہ کے روزے 3 ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض، یعنی چاند کی تیرھویں، چودھویں، پندرہویں) کے روزے 4 فجر سے پہلے کی دو رکعتیں۔ (رواہ النسائی واحمد)

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے: جب رسول اللہؐ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! یہ تو ایسا دن ہے جس کی تعظیم یہود ونصاریٰ کرتے ہیں؟ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔ (مسلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا : عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور ایک دن اس سے قبل یا ایک دن اس کے بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسلم احمد)

اسی واسطے بعض علماء نے کہا کہ عاشوراء کے روزوں کے تین درجے ہیں سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ نو دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھے جائیں۔ اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ نو اور دس محرم کے روزے رکھے جائیں۔ تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے۔ (زاد المعاد، فتح الباری)

 رانا شفیق پسروری

Post a Comment

0 Comments