’’حضرت ابوقتادہؓ سے (ایک طویل روایت میں) ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔‘‘ (رواہ مسلم)
محرم کی دسویں تاریخ کا نام’’ یوم عاشوراء ‘‘ اسلام سے پہلے ہی چلا آرہا ہے۔ لغت کی کتابوں میں یہ نام چار انداز سے ملتا ہے۔ عشوریٰ، عاشور، عاشوراء ، عاشوریٰ، لیکن اردو میں لکھی گئی کتب میں اکثر جگہ ’’ عاشورہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اس دن کا نام ’’ یوم عاشوراء ‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ اس تاریخ کو بہت سے اہم واقعات پیش آئے تو کئی دسویں تاریخیں جمع ہونے کی بناء پر اس کا نام ’’ یوم عاشورہ‘‘ ہوگیا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ ’’ خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی‘‘ ص۰۸۱ میں لکھتے ہیں کہ ’’ عاشوراء کو آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی‘ نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ کے کنارے پر ٹھہری تھی‘ موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی‘ اور فرعون غرق ہوا تھا‘ عیسیٰ ؑ کی ولادت ہوئی‘ اور اسی دن آسمان پر اٹھائے گئے ،اسی دن یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی اور اسی دن ان کی امت کا قصور معاف ہوا‘ یوسف علیہ السلام کنعان کے کنویں سے نکالے گئے‘ اور حضرت یعقوب ؑ کو مشہور مرض سے صحت ہوئی‘ ادریس ؑ آسمان پر اٹھائے گئے‘ ابراہیم ؑ کی ولادت ہوئی‘ سلیمان ؑکو ملک عطا ء ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے‘ تو یہودیوں کو عاشوراء کے دن روزہ رکھتے دیکھا، آپؐ نے ان سے پوچھا تم اس دن کیساروزہ رکھتے ہو۔ یہودیوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے‘ اس روز خدا نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی‘ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا‘ موسیٰ ؑنے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا اس لیے ہم بھی رکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ موسیٰ ؑ کے حقدار ہیں پس آپ ؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسرے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (رواہ البخاری ومسلم،مشکوٰۃ صفحہ ۰۸۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراکا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن تو یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا‘‘ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘(رواہ مسلم مشکوٰۃ صفحہ۹۷۱)
لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلا محرم آنے سے سے پہلے وصال فرماگئے۔ ’’ جمع الفوائد‘‘ میں ارشاد نبوی منقول ہے تم عاشورا کا روزہ رکھو اور اس بارے میں یہود کی مخالفت اس طرح کرو کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لو’’ جمع الفوائد‘‘ ہی میں ایک روایت منقول ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو پھر جس کا جی چاہتا عاشوراء کا روزہ رکھتا اور جس کا جی چاہتا نہ رکھتا۔‘‘(یعنی مستحب ہوگیا)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی جس شخص نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پرخرچ میں فراخی کی تو اللہ تعالیٰ تمام سال اس کے رزق میں فراخی فرما دے گا۔‘‘ان تمام ارشادات نبویہ سے معلوم ہوا کہ دسویں محرم کا تعلق اسلامی تعلیمات سے بہت گہرا ہے اور یہ دن ہر مسلمان کے لیے ارشادات نبویہ کے مطابق قابل احترام ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس دن مسلمانوں کے لیے دو کام مستحب ہیں
(۱) عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنا اور اس کے ساتھ ایک روزہ نو یا گیارہ محرم کا شامل کرلینا۔
(۲) گھر میں ہر روز کے مقابلہ میں کھانے کے اندر اپنی حیثیت کے مطابق کشادگی اور فراخی کرنا۔ اور اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث ضرور پیش نظرر ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو یوم عاشوراء کی برکتیں عطا فرمائے۔
مولانا حافظ فضل الرحیم
وسلم نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔‘‘ (رواہ مسلم)
0 Comments