حفاظت زبان

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حفاظت زبان

ﷲ رب العالمین کی بے شمار نعمتیں ہیں اگر انسان انہیں شمار کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم: ’’اور اگر تم ﷲ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی نہ گن سکو گے بلاشبہ! ﷲ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (النحل) ﷲ کی انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت زبان بھی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو صرف اسے ہی ہو سکتا ہے جسے ﷲ نے اس سے محروم رکھا ہے، وہی جان سکتا ہے کہ وہ ﷲ کی کتنی بڑی نعمت سے محروم ہے۔ یہی زبان ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات اور مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔ زبان اعضائے انسانی میں سے سب سے زیادہ بے قابو عضو ہے کیوں کہ اس کے استعمال میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ زبان ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے شیطان انسان کے خلاف استعمال کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اسے قابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ زبان کو غلط اور بُری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا ہی زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔

زبان کی حفاظت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے جو لفظ نکل گیا فرشتے اسے لکھ کر محفوظ کر لیتے ہیں جو قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی کے طور پر کام آئے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’ جب دو (فرشتے) لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب لکھتے ہیں وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگراں موجود رہتا ہے۔‘‘ حضرت بلال بن حارثؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات ایسے الفاظ بول دیتا ہے جن سے ﷲ راضی ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسے معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے، اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کا اجر و ثواب کس قدر ہے۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ معمولی سمجھ کر بول دیتا ہے جو ﷲ کی ناراضی کا باعث بنتا ہے اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کا کتنا نقصان ہے، ﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔‘‘ (ترمذی) ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جسم کے باقی اعضاء ہر روز صبح اس کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں ﷲ سے ڈر، اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگر تو درست رہے گی تو ہم بھی درست رہیں گے اگر تو کج رو ہو گی تو ہم بھی کج رو ہو جائیں گے۔ (ترمذی)

افضل مسلمان وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ سیدنا ابو موسیؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے ﷲ کے رسولﷺ! سب سے بہترین اسلام کس کا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں اور لغو باتوں سے کنارے پر رہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ المومنون) غور فرمائیں قرآن مجید میں کام یاب ہونے والوں کی صفات میں لغو سے اعراض کرنا اور دور رہنا بھی شمار فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو کسی کام میں لگا لیتے ہیں، بے مقصد زندگی نہیں گزارتے، فضول کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اگر کوئی دوسرا شخص لغو اور نکمی بات کرتا ہے تو اس کی بات کا یقین نہیں کرتے اس کی طرف سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
ان کو اپنی زندگی سے فرصت ہی نہیں ملتی کے وہ ان بے کار کاموں کی طرف دھیان دیں جیسے اپنے محبوب حقیقی کی یاد سے فرصت نہ ہو وہ فضولیات کی طرف کیسے متوجہ ہو سکتا ہے۔ (مولانا مفتی محمد عاشق، زبان کی حفاظت)

ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے کا م کی نہیں۔،، (ترمذی) جو لوگ ﷲ پر ایمان رکھتے ہیں ان کی گفت گو ہمیشہ بہترین ہوتی ہے وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے زبان پر قابو پا لیا اس کے لیے امن و سکون اور خوش خبری ہے۔ انسانی جسم میں زبان کی حیثیت ایک قائد کی سی ہے اس کی غلطی سارے جسم کی غلطی ہوتی ہے، آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تُو ہمارے سلسلے میں ﷲ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تُو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ (سنن الترمذی)

غبیت، چغلی، کسی کا مذاق بنانا، جھوٹی تعریف کرنا اس طرح کے بڑے گناہ اس سے صادر ہوتے ہیں بعض مرتبہ ہمارے منہ سے کوئی بات نکل جاتی ہے جس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا اور اس کی وجہ سے انسان دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایک جملہ ہی جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان ساری زندگی اچھا بولتا رہتا ہے مگر کبھی اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے ہے جسے ﷲ پسند نہیں کرتا اور وہ جنت سے دور ہو جاتا ہے اور وہ بات اسے جہنم میں داخل کر دیتی ہے۔ سیدنا ابُوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بلاشبہ! (بسا اوقات) بندہ ﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات کرتا ہے اور اس کی اس کو پروا بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے سبب سے ﷲ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا ہے اور بعض وقت بندہ ﷲ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات بولتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا لیکن اس کے سبب سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)

ابن القیمؒ فرماتے ہیں: آدمی قیامت کے دن نیکیوں کے پہاڑ لے کر آئے گا، وہ دیکھے گا کہ اس کی زبان نے وہ تمام پہاڑ ملیامیٹ کر دیے ہیں اور انسان گناہوں کے پہاڑ لے کر آئے گا اور وہ دیکھے گا کہ ﷲ کے ذکر اور اس جیسی چیزوں سے وہ گناہوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔ (الجواب الکافی) سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرم گاہ) کی ضمانت دے دیں تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری) ﷲ تعالیٰ نے انسان کو جتنی بھی نعمتیں دی ہیں ان میں سے ایک نعمت زبان ہے انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ زبان سے نکلا ہوا ایک بول انسان کو زوال بھی دیتا ہے اور عروج بھی۔ انسان اپنی باتوں سے ایسے ہی پہچانا جاتا ہے جسے کہ درخت اپنے پھلوں سے۔ 

زبان ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات دوسروں کو سمجھاتے ہیں اسی سے کلام الٰہی پڑھتے ہیں، اگر اس کی حفاظت کی جائے تو بہت اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو اس سے بڑے فسادات برپا ہوتے ہیں۔ زبان کی شیریں رکھنے سے انسان بڑے مشکل کام آسانی سے کر لیتا ہے، سخت سے سخت دل کو موہ لیتا ہے۔ انسان اور حیوان کے درمیان فرق کرنے کرنے والی چیز زبان ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں، فضول اور غیر ضروری میل جول سے بچیں، نیکیوں کا شوق اپنے دل میں پیدا کریں، اپنے گناہوں پر آنسو بہائیں اور گناہوں سے سچی توبہ کریں، ﷲ پاک سے دنیا و آخرت میں عافیت و نجات کی دعا کریں اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی جاری رکھیں۔

ﷲ تعالیٰ ہم سب کو زبان کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔ آمین

اقراء بتول  

Post a Comment

0 Comments