رزق میں برکت کے دس اعمال

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

رزق میں برکت کے دس اعمال

برکت وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہوا اور پانی کی طرح ہر آدمی کو ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں موجود ہر چیز اسباب راحت تو مہیا کر سکتی ہے، مگر راحت نہیں۔ دنیوی ترقی سے خوشی کے اسباب تو جمع کیے جا سکتے ہیں، مگر وہ اسباب، خوشی عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ ان اسباب کی کثرت تو ہمارے اختیار میں ہے، مگر ایسی برکت جس سے ہر حاجت پوری ہو جائے، یا کم اسباب میں زیادہ کام ہو جائے، یہ صرف اللہ تعالی کے عطا کرنے سے ہی حاصل ہو گی۔

قرآن و حدیث سے دس ایسے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، جن کو اختیار کرنے سے ان شاء اللہ ضرور برکت عطا ہو گی۔

٭… برکت کا مطلب دولت کی کثرت نہیں، بلکہ ’’کفایت ‘‘ ہے، یعنی ضرورت کے لیے کافی ہو جانا ٭… اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھر دوں گا اورتمہاری محتاجی کا دروازہ بند کروں گا.
 

1 توبہ واستغفار 
2 اللہ سے ڈرنا، گناہوں سے بچنا 
3 عبادت میں انہماک 
4 توکل علی اللہ 
5 اللہ کے راستے میں خرچ کرنا 
6 طالب علموں پر خرچ کرنا 
7 رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک 
8 کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک 
9 یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا 
10 اللہ کے راستے میں ہجرت 

توبہ واستغفار 
قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعے رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے:’’میں نے ان (قوم) سے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘ ( النوح، آیت:10،11) 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔‘‘ (ابوداؤد: 1518) 

توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے، اپنے کیے پر شرمندہ ہو، آئندہ ترکِ معصیت کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعمالِ خیر سے اس کا تدارک کرے۔ اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہوتو اس کی توبہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ صاحب حق سے معاملہ صاف کرے۔ ان شرائط کے بغیر توبہ بے حقیقت ہے۔ 

اللہ سے ڈرنا، گناہوں سے بچنا 
’’تقویٰ‘‘ اللہ کے احکام پر عمل اور شرعا ممنوع چیزوں سے اجتناب کا نام ہے۔ تقوی ان امور میں سے ایک ہے، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لیے راہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (سورہ طلاق،آیت: 3،2)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے، تو ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔‘‘ (سورۃ الاعراف: 96) 

برکت کا مطلب دولت کی کثرت نہیں، بلکہ ’’کفایت ‘‘ ہے، یعنی ضرورت کے کافی ہو جانا۔ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں اور معاشی طور پر بہت سے بہ ظاہر درمیانے درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہ فرق صرف برکت کی وجہ سے ہے۔ عبادت میں انہماک اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندے کا دل اور جسم دونوں حاضر رہیں۔ اللہ کے حضور میں خشوع وخضوع کا پاس رکھے۔ اللہ کی عظمت ہمیشہ اس کے دل و دماغ میں حاضر رہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھر دوں گا اورتمہاری محتاجی کا دروازہ بند کروں گا، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھر دوں گا اور تمہاری محتاجی کا دروازہ بندہ نہیں کروں گا۔‘‘ ( ابن ماجہ،4107) 

توکل علی اللہ 
ارشاد باری ہے:’’جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لیے کافی ہو گا، اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ (وقت) مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ (سورہ طلاق) 

حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ اللہ پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں۔ ‘‘ (مسنداحمد: 205)
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے۔ خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں۔ پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے۔ ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ و سیراب واپس کرتے ہیں، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے۔ 

اللہ کے راستے میں خرچ کرنا 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر اس کے پیچھے آئے گا اور اللہ بہترین رازق ہے۔‘‘ (سورۃ سبا:39) 
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ اپنی طرف سے مغفرت اور فضل (رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔‘‘ (البقرہ:268) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اے ابن آدم! خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘ ( ابن ماجہ) 

طالب علموں پر خرچ کرنا 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ایک بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگا ہوا تھا۔ بڑے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی) 

رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے وسعت رزق اور لمبی عمر کی خواہش ہو، اسے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ (صحیح البخاری)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے لمبی عمر، وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارا پانے کی خواہش ہو ، اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک (صلہ رحمی)کرنا چاہیے۔ ( مسنداحمد) 

صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہے کہ حسب گنجائش رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کیا جائے اور شرور و فتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔ 

کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے اور ان کی مدد کی جاتی ہے۔ حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سعد نے دیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری) 

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد)
 
یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا 
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پے درپے حج وعمرہ کرو، کیوں کہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور ( مقبول) کا بدلہ صرف جنت ہے۔ (مسند احمد)
 
اللہ کے راستے میں ہجرت 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۔(النسائ) ہجرت دارالکفر(جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کی طرف نکلنے کو کہتے ہیں۔ حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ اللہ کا دین قائم کر کے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔ اس قسم کی ہجرت تو مخصوص حالات میں کی جاتی ہے۔ تاہم ہجرت کی ایک اور صورت ہر وقت انسان کے لیے ضروری ہے۔ وہ گناہوں کی دنیا سے نیکیوں کے جہان کی طرف منتقل ہونا۔ اس ہجرت پر بھی ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائیں گے۔ 

یہ وہ دس اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ، لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو اللہ کی ذات ہے ۔ انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بے کار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانیت کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے۔

مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مالداری مال و اسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل مالداری دل کی مالداری ہے۔ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا:جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا:’’جی ہاں!‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’استغنا دل کی بے نیازی ہے اور محتاجی دل کی محتاجی ہے۔ ( فتح الباری)

Post a Comment

0 Comments