اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی سے متعلق درخواست پر جواب کے لیے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ ہائی کورٹ میں مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت کے حکم پر آئی جی اسلام آباد پولیس اور چیئرمین پی ٹی اے عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سیکریٹری داخلہ کے عدالت نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حساس نوعیت کے اس معاملے پر انتظامیہ کی خاموشی شرمناک ہے، مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی سے پورے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے اور معاملے پر فوری کارروائی نہ ہوئی تو پیروکاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روز محشر ہماری شفاعت کرنے والی ہستی کی کردار کشی کی جا رہی ہے، یہ معاملہ بیورکریسی پر نہیں چھوڑیں گے جبکہ معاملے میں ملوث عناصر اور جو تماشہ دیکھتے رہے دونوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر گستاخانہ مواد نشر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں امن و امان کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے، جبکہ سوشل میڈیا کے بغیر پہلے بھی زندہ تھے لیکن کسی نے بھی ہماری محبت پر ایسا حملہ نہیں کیا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ویر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو 8 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
عدالت نے کہا کہ وزیر داخلہ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ حکومت کی جانب سے اس اہم معاملے پر اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو بھی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذمہ داران اس گھناؤنی سازش کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی حکم نامہ لکھواتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوئے، جس پر عدالت چند منٹوں کے لیے برخاست کر دی گئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ’میں آج مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہوں، اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہو گی، جبکہ میرا سب کچھ، میرے ماں باپ، میری جان، مال، اولاد، نوکری سب اللہ کے رسول پر قربان ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے تکنیکی باریکیوں میں نہیں پڑنا، پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کروں گا، بھینسے ہوں یا گینڈے یا کتے یا سور سب بلاک ہونے چاہئیں اور اگر انہیں بلاک نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کر دیں۔‘ جسٹس شوکت عزیز کا سماعت ملتوی کرنے سے قبل مزید کہنا تھا کہ ’وزیر داخلہ اس برائی کے خاتمے کے لیے اپنی سربراہی میں کچھ اقدامات کریں خواہ پورے سوشل میڈیا کو بند ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔‘
0 Comments