غزوہ بدر رمضان المبارک کی سترھیوں تاریخ جمعے کو ہوا۔ مسلمان دستہ تین سو تیرہ افراد، ستر اونٹ، دو گھوڑوں، چھ زرہ بکتر اور آٹھ شمشیروں پر مشتمل تھا۔جب کہ دوسری طرف ہزاروں کفار، سات سو اونٹ، دو سو گھوڑے، سیکڑوں ڈھالیں، تلواریں اور آلات حرب سے لیس تھے۔ غزوہ بدر میں چودہ صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ بدر کے ان چودہ شہید صحابہ کرامؓ کے نام میدان بدر کے پاس ایک بورڈ پر لکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے اب یہ جگہ بستی میں گھر گئی ہے۔ شہداء بدر کی قبریں جس جگہ ہیں وہاں اب کوئی نشان نہیں ہے۔ اب یہاں آدمی کے قد سے بلند چار دیواری بنا دی گئی ہے۔ اب گاڑی میں بیٹھ کر بھی آپ اس چار دیواری کے اندر کا منظر نہیں دیکھ سکتے۔ بدر کا مقام مدینہ سے مکہ جانے والے پرانے راستے پر تقریباً نصف مسافت پر ہے۔ مدینہ سے کچھ ہی دور سفر کریں تو طویل پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس پہاڑی راستے میں بھی ایک جدید دو رویہ شاہراہ بنائی گئی ہے جب کہ صدیوں پرانے قافلوں کے راستے پر بھی پختہ سنگل روڈ بنا دی گئی ہے۔
یہ دونوں سٹرکیں ساتھ ساتھ ہیں۔ بدر کے راستے کے پہاڑ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے کسی حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔ ان بنجر اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان کہیں کہیں سر سبز وادیاں اور نخلستان ہیں۔ ان بستیوں میں جنگلی کیکر کے درخت اور اونٹ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مدینہ سے تقریباً 80 کلومیٹر سفر کے بعد پرانی سٹرک کے دائیں جانب بئیر الروحا یعنی روحا ء کا کنواں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لشکر نبوی نے پڑائو ڈالا تھا۔ اس کنویں کے حوالے سے تاریخی کتابوں میں کئی روایات ہیں۔ کنویں کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے روایت ہے کہ یہاں حضورﷺ کا خیمہ نصب تھا۔ کنواں روحا ء اس پہاڑی وادی کے بالکل درمیان میں ہے۔ اس کے پاس کھڑے ہو کر اگرچاروں طرف نظر دوڑائیں تو طویل القامت پہاڑوں نے وادی کو گھیرا ہوا ہے۔ یہ جگہ ایک گول پیالے کی طرح ہے۔ کنویں کے چاروں طرف یہ وادی تقریباً دو دو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی میں کہیں کہیں کیکر کے خشک درخت اور کھجور کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ وادی روحا کا منظر دیدنی ہے۔
بئیر روحاء سے بدر کی جانب سفر شروع کریں تو چند ہی کلو میٹر بعد پہاڑی وادیواں میں سرسبز و شاداب اور پر کشش چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں جہاں تمام روزمرہ اشیا ء با آسانی دستیاب ہیں۔ بدر شاہراہ کے دونوں اطراف راستے میں کئی جگہوں پر اب بھی صدیوں پرانے پتھروں کے بنے بے آباد گھروں کی شکستہ دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیلابی گزرگاہوں کے ساتھ ان پہاڑیوں پر قدیم درجنوں گھراب بھی تاریخ اسلام کی پہلی جنگ ’’غزوہ بدر‘‘ میں حصہ لینے والے قافلے کی گزرگاہ کے شاہد ہیں۔ ان گھروں کو اگر اب بھی محفوظ کر لیا جائے تو یہ عظیم تاریخی ورثہ آیندہ آنے والی نسلوں کو تحقیق کا بہت سا مواد فراہم کر سکتی ہے۔ کچھ اور آگے چلیں تو الخیف کا قصبہ آتا ہے ۔ پھر الوسطہ اور الفارا کا پڑائو اور پھر الجدید کا قصبہ ہے۔ اس سے کچھ آگے بدر کی منفرد وادی نظر آتی ہے۔ بدر آج کے سعودی عرب کا ایک جدید چھوٹا شہر ہے جو زندگی کی ہر سہولت سے آرستہ ہے۔ یہاں غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہے۔ بدر کے علاقے میں اب بھی کہیں کہیں پرانے طرز کے مٹی اور گارے کے گھر ہیں۔
مقام بدر دو پہاڑیوں کے درمیان ہے۔ وادی بدر میں داخل ہوتے ہی آپ کی پہلی نظر اسی سفیدی ملے ریتلے پہاڑ پر پڑتی کہ جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ اسی ریتلے پہاڑ کے درے سے حضورﷺ کی دعا کے بعد ﷲ کی مدد (فرشتوں کی صورت میں) قافلہ اسلام میں شامل ہوئی اور کفار کو شکست فاش ہوئی۔ آپ کی دوسری نظر مسجد العریش کے میناروں پر پڑتی ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی پاکﷺ کا خیمہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام یوم الفرقان رکھا۔ قرآن پاک کی سورۃ انفال میں تفصیل کے ساتھ جب کہ دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا ۔ مسلمانوں کے لشکر نے بدر کے میدان میں جس جگہ پڑاؤ کیا تھا، قرآن پاک نے اسے ’’العدوۃ الدنیا‘‘ کہا ہے۔ جس جگہ حضورﷺ کا خیمہ تھا اسی جگہ مسجد العریش ہے۔ ہم نے یہاں نوافل ادا کیے ۔ بدر کی مٹی چمکدار ریت کی مانند ہے۔ حضرت عائشہؓ نے نبی کریمﷺ سے جب ایک بار پوچھا کہ آپ کی زندگی کے سخت ترین دن کون سے تھے تو آپﷺ نے فرمایا۔ عائشہ ایک دن طائف کا دوسرا بدر کا۔ حکیم امت علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اتر آئیں گے قطار اندر قطار اب بھی
0 Comments