دنیا میں بہت سے لوگ اچھے کردار کا مظاہرہ کر کے جہاں اپنے لیے نیک نامی کماتے ہیں وہاں اپنے خاندان اور دوست احباب کی عزت افزائی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بدبختی اور شرانگیزی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود بدنام ہوتے ہیں بلکہ اپنے خانوادے اورمتعلقہ لوگوں کے لیے بھی رسوائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے لیے شر کا سبب بننا بہت بڑی بدبختی ہے۔ دنیا میں وہ لوگ شرارت اور شر انگیزی کے اعتبار سے بدترین ہیں جو مقدس ہستیوں کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کی ذات میں عیوب کو تلاش کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی مقدس جماعت یقینا کائنات کی سب سے اعلیٰ افضل جماعت ہے اور اس جماعت کے بارے میں سوئے ادب کرنا تو بڑی دور کی بات ہے بے ادبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بعض لوگ شرم اور اخلاق کے تمام ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیوں کے حوالے سے بھی بے ادبی اور تنقیص کامظاہرہ کرتے ہیں۔
ماضی میں چارلی ہیبڈو اور گیرٹ وائلڈرز نے اس حوالے سے اپنے لیے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا اور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی بے ادبی کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ اب ایک مرتبہ پھر فرانسیسی صدر میکرون اس تاریخ کو دہرانے جا رہے ہیں اور گستاخانہ خاکے بنانے والوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس اس مقامِ بلند پر فائز ہے کہ جس کا عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا‘ لیکن بعض انسان ایسے ہیں جو اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ پاتال کی گہرائیوں میں گر جاتے ہیں اور قرآن مجید کے مطابق یہ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھ اور پہچان جاتے ہیں یقینا یہ لوگ ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہیں۔ سورہ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کا راستہ تلاش کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انعام یافتہ لوگوں کے چار طبقات ہیں صلحا ‘ شہدا‘ صدیقین اور انبیا۔
صلحا وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو پاکیزگی کے ساتھ گزارتے اور اوامر الٰہی کی انجام دہی میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کیے رکھتے ہیں اور یہ لوگ زندگی کے آخری سانس تک دین پر استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شہدا وہ لوگ ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان تک کو نچھاور کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدا کو حیاتِ جاوداں سے نوازا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ شہدا کو مردہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ زندہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 154 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور مت کہو ان کو جو قتل کیے جائیں اللہ کی راہ میں ‘ مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم شعور نہیں رکھتے‘‘۔ شہدا کے افکار‘ جدوجہد اور قربانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان میں خود بھی قربانی کا ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان کے سیرت و کردار سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
صدیقین کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جن کے ایمان کی گواہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے دی ہے۔ اس اُمت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صداقت کے اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو انتہائی بلند مقام عطا فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت کے حوالے سے جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی سیرت و کردار کو دیکھنے کے بعد کسی نشانی کو طلب نہ کیا اورفی الفور حلقۂ بگوش ِ اسلام ہو گئے۔ اسی طرح سفر بیت المقدس اور معراج کے حوالے سے بھی آپؓ کسی قسم کے شکوک وشبہات کا شکار نہ ہوئے اور آپ نے فی الفور اس واقعہ کی تصدیق کی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 33 میں صدیقین کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو آیا سچ کے ساتھ اور تصدیق کی اُس کی وہی لوگ ہی متقی ہیں‘‘۔ صدیقین اگرچہ مقام بلند پر فائز ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا مقام تمام جماعتوں سے اعلیٰ ہے اس کا سبب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی کا نزول ہوتا رہا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حقیقتِ وحی کو بیان فرماتے ہوئے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے‘ مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے بلاشبہ وہ بہت بلند بہت حکمت والا ہے‘‘۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا مقام اگرچہ انتہائی بلند ہے لیکن ان میں سے بھی صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام سب سے بلند ہے اور ان میں سے بھی اولوالعزم رسولوں کا مقام سب سے بلند ہے جن میں حضرت نوحؑ‘ حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت موسیٰؑ‘ حضرت عیسیٰؑ اور نبی کریم ﷺ شامل ہیں۔ اسلام نے ہمیں تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت پر یقین رکھنے کی تلقین کی ہے‘ لیکن جہاں تک تعلق ہے حضرت رسول اللہﷺ کی شان وعظمت کا تو یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ کی شان تمام انبیا علیہم السلام میں سے بلند ہے۔ جس کے متعدد دلائل کتاب وسنت میں موجود ہیں۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ عالمگیریت: نبی کریم ﷺسے پہلے مبعوث ہونے والے تمام انبیا محدود علاقے اور محدود وقت کے لیے اللہ کے رسول بن کر کائنات میں جلوہ گر ہوئے؛ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا‘ حضرت ہودؑ نے قوم عاد‘ حضرت صالحؑ نے قوم ثمود‘ حضرت شعیبؑ نے قوم مدین ‘ حضرت لوطؑ نے قوم سدوم‘ حضرت موسیٰ ‘ حضرت ہارون ‘ حضرت داؤد‘ حضرت سلیمان‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام بنی اسرائیل کے رسول بن کر آئے‘ لیکن جب حضرت رسول اللہﷺ کی باری آئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ آپ پوری انسانیت کے رہنما بن کر آئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں‘‘۔ اسی طرح سورہ سبا کی آیت نمبر 28 میں ارشاد ہوا: ''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔
2۔ نبی القبلتین: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہوئی یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے اسحق علیہ السلام کی اولاد۔ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد ارض ِ عراق‘ اردن‘ فلسطین میں لوگوں کی اصلاح اور دعوت کے فریضے کو انجام دیتی رہی جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنا مسکن جزیرۃ العرب اور سرزمین ِمکہ کو بنا لیا۔ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اور ورثا میں سردار‘ رؤسا اور صاحبِ اثر شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے بیت اللہ کی تولیت کے فریضے کو انجام دیا۔ شبِ معراج اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو بیت اللہ الحرام سے بلند فرما کر صحن بیت المقدس میں پہنچا دیا۔ اس سفر کی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اسریٰ کی آیت نمبر ایک میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''پاک ہے (اللہ) جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک (وہ) جو ہم نے برکت کی اس کے اردگرد۔ تاکہ ہم دکھائیں اسے (کچھ) اپنی نشانیوں سے ‘‘۔ صحن ِبیت المقدس میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کی امامت بھی فرمائی۔ اس طریقے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو ثابت فرما دیا کہ آپﷺ فقط آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے بلکہ اللہ نے آپ کو جانے والوں کا بھی امام بنا دیا ہے۔
3۔ ختم نبوتﷺ : نبی کریم ﷺ سے پہلے آنے والے انبیا میں سے ہر نبی کے بعد دوسرا نبی دعوتِ توحید کے ابلاغ کے فریضے کو انجام دیتا رہا ‘ لیکن نبی کریمﷺ کی ذات ِاقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت ورسالت کو تمام کر دیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں یوں فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺکی ذاتِ اقدس کی عظمت کا معترف ہونا چاہیے۔ آپﷺ کی عظمت کے دو اہم تقاضے یہ ہیں کہ آپﷺ سے والہانہ محبت کی جائے اور آپ ﷺ کی ہر بات کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح جو شخص توہین کا ارتکاب کرتا ہے اسے قانون کے کٹہرے میں پہنچا کر اسے قرار واقعی سزا دینا یہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ توہین رسالت پر پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن مغربی دنیا کے بہت سے ممالک میں توہین رسالت سے متعلق قوانین موجود نہیں ۔ اہلِ مغرب کو یہ بات باور کروانا کہ جہاں پر انہوں نے ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کو وضع کیا ہے وہیں پر ان کو توہین رسالت سے متعلق قوانین کو بھی بنانا چاہیے۔ یہ مسلمان حکمرانوں اور عامۃ الناس کی ایک اہم ذمہ داری ہے اس حوالے سے مسلمان حکمرانوں ‘علما اور دانشوروں کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو عظمت رسول اللہﷺ کے اعتراف کے لیے آمادہ وتیار کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو رسول کریمﷺ سے محبت کرنے‘ آپﷺ کی ہر بات کو بے چون وچرا ماننے اور آپﷺ کی عظمت کا دفاع کرنے کی توفیق دے۔ آمین
0 Comments