اسپین کی عظیم تاریخی 'مسجد قرطبہ' مسلمانوں کے عہد رفتہ کی یاد

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

اسپین کی عظیم تاریخی 'مسجد قرطبہ' مسلمانوں کے عہد رفتہ کی یاد

سپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ ملک اندلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ دور جدید میں اسے سپین کے نام سے شناخت ملی ہے۔ قرطبہ سپین کی ریاست اندلوسیہ کا مرکزی شہر ہے۔ اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل رہا ہے کہ مسلمانوں کے سنہری دور میں یہاں ایسی ایسی دلکش اور دلفریب عمارتیں بنائی گئی ہیں جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔ انہی عمارتوں میں فن تعمیر کے معراج کو چھوتی نفاست اور پاکیزگی کی علامت جامع مسجد قرطبہ ہے۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر کا سہرا اموی خلیفہ امیر عبدلرحمان اول جو عبدلرحمان الداخل کے نام سے جانے جاتے ہیں کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے سن 784 میں اس کی تعمیر کا آغاز کرایا۔ مسجد قرطبہ وادیء الکبیر میں دریا پر بنائی گئی ایک قدیم پل پر اس جگہ واقع ہے جہاں رومانی بت پرستوں کے زمانے میں ایک بت خانہ ہوا کرتا تھا۔

اس علاقے میں جب عیسائیت پھیلی تو اس بت خانے کو گرا کر سینٹ ونسنٹ کی یاد میں ایک گرجا گھر تعمیر کر دیا گیا۔ مسلمانوں نے اس گرجا گھر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ عبادت کیلئے مخصوص تھا جبکہ دوسرے حصے میں مسجد بنا دی گئی۔ اموی خلیفہ عبدالرحمان الداخل کے زمانے میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو ایک لاکھ دینار میں ایک جگہ خرید کر مسجد قرطبہ کی تعمیر کی گئی۔ مسجد کا محل وقوع قصر خلافت کے سامنے ہے اور قصر خلافت کے آس پاس خلیفہ کے اہل خانہ کے محلات ہیں جو باغات سے مزین ہیں اور ان کے آس پاس ایک بڑی فصیل بنائی گئی تھی۔ مسجد کا نقشہ خود خلیفہ عبدالرحمان الداخل نے تیار کیا تھا۔ خلیفہ عبدالرحمان کی ذاتی کاوش اور خواہش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کی پہلی اینٹ بذات خود خلیفہ عبدالرحمان نے اپنے دست مبارک سے لگائی بلکہ یہاں تک بھی روایت ہے کہ خلیفہ خود روزانہ مزدوروں کے شانہ بشانہ کچھ وقت کے لئے کام بھی کرتے تھے۔

مسجد کی تعمیر و توسیع
یہ بنیادی طور پر ایک مستطیل شکل کی مسجد تھی جس کی دیواریں بہت قیمتی اور نایاب پتھروں سے بنی ہوئی تھیں جبکہ سارا فرش سنگ مر مر سے اور چھت خوبصورت نقش ونگار سے مزین فنون لطیفہ کے اعلی نمونے سے آراستہ تھی۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے لائے گئے قیمتی اور نایاب پتھروں کو استعمال کیا گیا۔ مینار ستر فٹ بلند ہیں جبکہ مسجد کے ستونوں کی تعداد 1390 تھی جو حادثات زمانہ کی نظر ہوتے ہوتے اب غالباََ آٹھ سو کے رہ گئے ہیں۔ یہ ستون اعلیٰ قیمتی اور نایاب سنگ مر مر سے بنائے گئے تھے۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں قائم ہیں۔ مسجد کی چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند ہے۔  عبد الرحمان الداخل کی وفات کے بعد اس کے فرزند ہشام اول نے مسجد قرطبہ کی تعمیر کا کام جاری رکھا، یہ بھی اپنے والد کی طرح مزدوروں کے شانہ بشانہ تعمیر میں حصہ لیتا رہا۔ اس کے بعد خلیفہ عبدالرحمان ناصر کے دور میں اس کی تزئین و آرائش میں خاطر خواہ کام کیا گیا ، مسجد کی دلکشی کا یہ عالم تھا کہ لوگ دور دور سے زیارت کو آتے تھے۔ الحکم ثانی نے 15 اکتوبر 921  کو تخت نشین ہوتے ہی مسجد کی فوری توسیع کا حکم دیا۔ یہ توسیع بھی قبلہ رخ تھی۔ مرکزی محراب بھی ازسر نو بنائی گئی۔ یہی محراب آج کل زیارت گاہ عام و خاص ہے۔ اس محراب کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ آخری توسیع سن 987 سے 990 کے دوران کی گئی۔ جو محمد ابی عامر المعروف المنصور کے عہد اقتدار میں ہوئی۔

مسجد کی جگہ گرجا گھر کی تعمیر
مسجد کے نادر الوجود ہونے کے اعتراف کے باوجود مسجد کے عین وسط میں سولھویں اور سترھویں صدی میں ایک گرجا گھر تعمیر کر کے مسجد کی حیثیت کو مسخ کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کیا گیا۔ چنانچہ اب پوری عمارت عیسائیوں کے خیال میں بنیادی طور پر کلیسا ہے نہ کہ مسجد۔ اس عمارت کا سرکاری نام ''قرطبہ کا مسجد گرجا ‘‘ ہے۔ 1234 میں جب مسیحی حکمران شاہ فرنانڈو سوم کی فوجوں نے قرطبہ پر قبضہ کیا تو اس نادر الوجود مسجد کے مینار پر صلیب چڑھا کر اسے باقاعدہ گرجے کا درجہ دے دیا گیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی یہاں باقاعدگی سے عبادت شروع کر دی گئی۔ سولہویں صدی میں بشپ الانسومانرک نے مسجد کو کیتھیڈرل بنانے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی مسجد کے وسطی حصے کی توڑ پھوڑ شروع کر دی گئی۔ اگرچہ خود مسیحی حلقوں نے بھی بشپ کی اس حرکت کو ناپسند کیا لیکن بشپ کی ہدایات کے مطابق توڑ پھوڑ کا کام جاری رہا۔ ایک سال بعد بادشاہ اشبیلیہ میں کسی گرجا کے افتتاح کے لئے جاتے ہوئے جب قرطبہ رکا تو اسے پہلی بار مسجد قرطبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

بعض روایات کے مطابق یہ مسجد کی خوبصورتی دیکھ کر صدمے اور غصے سے کہنے لگا کہ '' اگر مجھے اس نادر الوجود کی پہلے سے خبر ہوتی تو میں اسے توڑنے کی کبھی بھی اجازت نہ دیتا۔ پھر براہ راست پادریوں کو مخاطب کر کے کہا، '' تم نے ایک ایسی نادر شے برباد کر دی ہے جس کا بدل ممکن ہی نہیں۔ اسکی جگہ گرجا تعمیر کیا، ایسے گرجے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں‘‘ تسلط کے بعد مسجد قرطبہ کے محرابوں اور دیواروں پر لکھی آیات کو پلاسٹر سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ صورت حال کئی سو سال تک برقرار رہی یہاں تک کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور کا آغاز ہوا۔ جدید علم کی روشنی پھیلی ، مذہبی تعصب میں کمی ہوئی تو مسجد قرطبہ کو مسیحی راہبو ں سے لیکر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ جب آثار قدیمہ والوں نے پلاسٹر کی تہیں اتاریں تو خوش قسمتی سے قرآنی آیات محفوظ حالت میں دوبارہ نظر آنے لگیں اور چھتوں پر نقش کاری کا کام بھی بدستور موجود تھا۔

مسلمانوں کی مسجد میں عبادت کی اپیل
دسمبر 2006 میں اسپین میں مسلمانوں کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا کہ مسجد قرطبہ صدیوں سے مسلمانوں کی عظیم عبادت گاہ رہی ہے اور یہ کل عالم اسلام کے لئے ایک مقدس مقام ہے۔ ہم اس عظیم عبادت گاہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ ملکر عبادت کر کے مسیحی دنیا میں خیر سگالی کا پیغام دے کر ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جسے ہسپانوی کیتھولک چرچ نے نماز کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

علامہ اقبال اور مسجد قرطبہ
مسجد قرطبہ کا ذکر ہو تو ذہن میں ایک دم شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا نام ذہن میں آتا ہے جنہوں نے مسجد قرطبہ سے متاثر ہو کر شہرہء آفاق نظم لکھی تھی۔ علامہ صاحب کے اس سفر کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے، ''علامہ صاحب مسجد میں داخل ہوئے تو جی چاہا کہ مسجد میں تحیتہ المسجد کے نوافل ادا کر نے چاہئیں۔ چنانچہ جب عمارت کے نگران سے اس بارے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ایسا پادری سے پوچھے بغیر نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ پادری سے اجازت لینے چل دیا۔ اس کے جاتے ہی علامہ صاحب نے نیت باندھی اور نگران کے واپس آنے سے پہلے ہی نوافل ادا کر لئے۔ (ذکر اقبال)

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments