ہمارے معاشرے کے لوگوں کی بڑی تعداد مختلف وجوہات کی بنا پر پریشان نظر آتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد معاشی معاملات میں اُلجھی ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ مختلف طرح کی بیماریوں اور عارضوں کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ مالی نقصانات کی وجہ سے غم اور پریشانیوں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ اپنے قریبی اعزہ واقارب کی موت پر دکھ اور کرب میں مبتلا ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیٹیوں کے رشتوں کی وجہ سے پریشان ہے جبکہ کئی لوگ اولاد کی نعمت سے محرومی کی وجہ سے مضمحل نظر آتے ہیں۔ کتاب وسنت میں پریشانیوں اور مشکلات کے حل کے لیے بہت سی خوبصورت تدابیر بتلائی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہو نے سے یقینا انسان کی مشکلات اور پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ چند اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ دعا: دعا مانگنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے جمیع مصائب اور مسائل کو دور کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیا علیہم السلام بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگا کرتے تھے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام ‘ حضرت نوح علیہ السلام‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام ‘حضرت یوسف علیہ السلام‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام‘ حضرت ایوب علیہ السلام ‘ حضرت یونس علیہ السلام‘ حضرت سلیمان علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام ‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے انبیا علیہما السلام کی دعاؤں کو سنتے رہے اور اُن کی امنگوں اور تمناؤں کو پورا فرماتے رہے۔ دعا کی برکت سے حضرت یونس علیہ السلام کے غم اور حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دور ہوئی‘ اسی طرح بڑھاپے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو دعا کی برکت سے جلیل القدر اولاد کی نعمت سے نواز دیا۔
نبی کریمﷺ خود بھی بکثرت دعامانگا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی اُمت کو بھی مختلف اوقات کی دعائیں سکھلائیں۔ کتاب و سنت میں مذکور دعاؤں کو اگر جمع کیا جائے تو ایک بہت بڑا ذخیرہ بن جاتا ہے۔ مسلمانوں کو انبیا علیہما السلام اور بالخصوص نبی مہربان حضرت رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنی جملہ تکلیفوں اور پریشانیوں کے حل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ یقینا ہماری بڑی سے بڑی مشکل کو دور فرما دیں گے۔ قرآن مجید میں جہاں پر انبیا علیہم السلام اور صلحا کی دعاؤں کا ذکر ہے وہیں پر دعا کی قبولیت کے حوالے سے احادیث میں بھی مختلف طرح کے واقعات مذکور ہیں جن میں سے صحیح بخاری میں ایک واقعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی‘ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔
اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر تینوں اشخاص نے اپنے اپنے نیک عمل کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے پیش کر کے دعا مانگی۔ ہر دعا کے بعد پتھر غار کے منہ سے ہٹتا گیا‘ حتیٰ کہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔ غار کے پتھر کے واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی مشکل خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اللہ تبارک وتعالیٰ سے اگر دعا کی جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور فرما دیتے ہیں۔
2۔ توبہ واستغفار : انسان کی زندگی میں آنے والی بہت سے مشکلات کا اس کے اعمال سے گہرا تعلق ہوتا ہے؛ چنانچہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ تبارک وتعالیٰ سے استغفار کی جاتی ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ استغفار کی برکت سے بھی انسان کی مشکلات کو دور فرما دیتے اور اپنی نعمتوں سے نواز دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نوح کی آیت نمبر 10 سے 12 میں استغفار کے حوالے سے حضرت نوح علیہ السلام کی ایک خوبصورت بات کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہے: ''تو میں نے کہا بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کر دے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین و آسمان کی بہت سی نعمتوں کو توبہ استغفار کی وجہ سے انسان کے لیے کھول دیتے ہیں۔
3۔ ذکر الٰہی: کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے کی وجہ سے انسان اندھیرے سے نکل کر اجالے کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ احزاب کی آیت نمبر 41 میں یوں بیان فرماتے ہیں : ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو یاد کرو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح و شام‘ وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ مومنوں پر بہت رحم کرنے والا ہے ‘‘۔ اسی طرح سورہ رعد کی آیت نمبر 28 میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ جو ایمان لائے اور اطمینان پاتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے سن لو! اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے دل کا امن اور چین اللہ وتبارک کے ذکرمیں رکھا ہے؛ چنانچہ مشکلات کی دوری اور اطمینان کے حصول کے لیے کثرت سے ذکر کرنا انتہائی مفید ہے۔
4۔ تقویٰ: جب کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے ڈر کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس عظیم عمل کی برکت سے انسان کی تنگیوں اور تکالیف کو دور کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 اور 3 میں یوں فرماتے ہیں : '' اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا‘‘۔
5۔ توکل: کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی زندگی میں آنے والی جملہ تکالیف اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اہلِ ایمان کا بھروسہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات پر ہوتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''کہہ دیجئے ہر گز نہیں پہنچے گا ہمیں (کوئی نقصان) مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے‘ وہ ہمارا رب ہے اور اللہ پر (ہی) پس چاہیے کہ بھروسہ رکھیں ایمان والے‘‘۔ توکل کرنے والے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ خود کافی ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 3 میں یوں فرمایا : اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اُسے بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔
6۔ شکر : اللہ تبارک وتعالیٰ کو کفرانِ نعمت بہت زیادہ نا پسند ہے؛ چنانچہ کفرانِ نعمت کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو مثال کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112 میں یوں بیان فرماتے ہیں : ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی ‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔ جہاں کفران ِنعمت کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی وارد ہوتی ہے وہیں پر نعمتوں پر شکر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں اللہ تبارک وتعالیٰ یوں فرماتے ہیں : ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے‘‘۔
7۔ انفاق فی سبیل للہ: اللہ تبارک وتعالیٰ کثرت سے انفاق کرنے والوں کی جملہ پریشانیاں اورغم دور فرما دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں یوں فرمایا ہے: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو ‘ چھپا کر اور اعلانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ اگر ان تمام اعمال کو اپنے زندگی میں جگہ دی جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے انسانوں کی جمیع مشکلات اور پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی پریشانیوں کو دور فرمائے۔
1 Comments
Thanks for wrriting
ReplyDelete