دعوت ِ دین کے تقاضے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

دعوت ِ دین کے تقاضے


دین کی دعوت دینا انتہائی عظیم عمل ہے اوراس عمل کی عظمت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر 33 میں کچھ یوں واضح فرمایا ہے : ''اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے لحاظ سے اس سے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔ دعوت کے عمل کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی عظیم جماعت کو اس کارِ خیر کے لیے چنا ہے۔ سورہ آل عمران میں اس حقیقت کو بیان گیا ہے کہ خیر اُمت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ نیکی کے کاموں کی دعوت دی جائے اور برائی کے کاموں سے روکا جائے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''ہو تم بہترین اُمت (جسے) نکالا (پیدا کیا) گیا ہے لوگوں (کی اصلاح) کے لیے (کہ) تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو برائی سے اور تم ایمان لاتے ہو اللہ پر‘‘۔ ان آیات مبارکہ کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی دعوتِ دین کی اہمیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ دعوتِ دین کے اس عظیم عمل کی انجام دہی کے دوران بعض اہم باتوں کو ملحوظِ خاطررکھنا انتہائی ضروری ہے۔ جو درج ذیل ہیں:

1۔ اصلاحِ نیت: کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے نیت کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی کام کرتا ہے خواہ وہ کام کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں مقبول نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''قیامت کے دن جب ہر اُمت گھٹنوں کے بل پڑی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا‘ پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہو گا‘ دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا‘ اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا: کیا میں نے تجھے اپنے رسول ؐپر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقیناً اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا؟

وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے رات دن تیری عبادت کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا‘ پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں‘ سو تجھے کہا گیا‘ پھر صاحبِ مال کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی‘ یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقینا میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھے جو چیزیں دی تھیں اس میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہا جائے‘ سو تمہیں سخی کہا گیا‘ اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیا گیا؟ 

وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا؛ چنانچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تو نے جھوٹ کہا‘ فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ابوہریرہؓ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی‘‘۔ اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ داعی کو دعوت ِدین کا کام اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے اور اس کا مقصد عوام کی تحسین اور اپنی ذات کی سربلندی نہیں ہونا چاہیے۔

2۔ اللہ سے اجر کی اُمید: دعوت دین کے بدلے اگر کسی وقت انسان کو ہدیہ یا تحفہ کی شکل میں مالی فائدہ پہنچ جائے تو اور بات ہے لیکن انسان کی نیت دعوتِ دین کے عظیم کام کے بدلے لوگوں سے مال لینے کی نہیں ہونی چاہیے۔ داعی کو اجر کی اُمید اللہ تبارک وتعالیٰ سے رکھنی چاہیے۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شعراء میں جا بجا مقام پر بیان فرمایا ہے ۔ حضرت نوح ‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہما السلام کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا تھا :'' اور نہیں میں سوال کرتا تم سے اس پر کسی اجرت کا‘ نہیں ہے میری اجرت مگر جہانوں کے رب کے ذمے‘‘۔ اگر داعی کو دعوتِ دین کے دوران مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے تو اُسے خندہ پیشانی سے ان کا سامنا کرنا چاہیے۔

3۔ استقامت: دعوتِ دین کا کام استقلال اوراستقامت سے ہونا چاہیے اور اس عمل کو بغیر کسی انقطاع کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت کو بڑے خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی بات کو سورہ نوح کی آیت نمبر 5 سے 9 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اس نے کہا اے میرے رب بے شک میں نے دعوت دی اپنی قوم کو رات اور دن۔ سو نہیں زیادہ کیا انہیں میری دعوت نے مگر (حق سے دور) بھاگنے ہی میں۔ اور بے شک میں نے جب (بھی) دعوت دی انہیں تاکہ تو معاف کرے ان کی انہوں نے ڈال لیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اور اوڑھ لیے اپنے کپڑے اور اڑ گئے اور انہوں نے تکبر کیا خوب تکبر ۔ پھر بے شک میں نے دعوت دی انہیں بلند آواز سے۔ پھر بے شک میں نے اعلانیہ (دعوت) دی ان کو اور میں نے خفیہ (دعوت) دی ان کو بالکل خفیہ‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو کسی بھی طور پر حالات کے مدوجزر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہی رہنا چاہیے۔

4۔ مادی نتائج سے بے نیاز: داعی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے مادی نتائج سے بے نیاز ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دینی چاہیے اور اس حوالے سے انبیاء علیہم السلام کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی لیکن اس کے باوجود وہ دین کی دعوت دیتے رہے۔ لوگ حق بات کو قبول کریں یا نہ کریں داعی کو دعوتِ دین کے عمل کوجاری رکھنا چاہیے۔

5۔ دعوت پر خود عمل کرنا: داعی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے خود بھی دین پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشاد فرمایا : ''کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور تم بھول جاتے ہو اپنے آپ کو۔ حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب کی کیا پس تم عقل نہیں کرتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صف کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو کیوں تم کہتے ہو (وہ بات) جو تم نہیں کرتے ہو۔ (یہ) بہت بڑی(بات) ہے ناراضی کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک کہ تم (وہ بات) کہو جو تم نہیں کرتے ہو‘‘۔

6۔ کتمانِ حق اور حق و باطل کی آمیزش سے پرہیز: داعی کو نہ تو حق بات کو چھپانا چاہیے اور نہ ہی حق اور باطل کی آمیزش کر کے لوگوں کے سامنے بات کو پیش کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ داعی کی بات پر یقین کرتے ہیں اور اگر داعی حق چھپائے یا حق و باطل میں آمیزش کر کے ان کے سامنے بیان کرے توسننے والوں کی گمراہی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 42 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور حق کو (نہ) چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔

7۔ مشترکات کی دعوت: داعی کے لیے جہاں پر حق بات کو واضح کرنا ضروری ہے وہیں پر نکتۂ مشترکہ کی دعوت دینا بھی داعی کی ذمہ داری ہے تاکہ مشترکات کی بنیاد پر فاصلوں کو کم کر کے مخاطب کو حق کے قریب کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ کتاب کو توحید کی بنیاد پر اشتراک کی دعوت دی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 64 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''کہہ دیں اے اہل کتاب آؤ (ایسی) بات کی طرف (جو) یکساں (مسلم) ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کہ نہ ہم عبادت کریں اللہ کے سوا ( کسی کی) اور ہم شریک نہ بنائیں اس کے ساتھ کسی کو اور نہ بنائے ہم میں سے کوئی کسی کو رب اللہ کے علاوہ‘‘۔

8۔ حکمت اور اچھے پیرائے سے دین کی دعوت دینا: بعض لوگ دین کی دعوت دیتے وقت درشتی اور سختی کا رویہ اختیار کرتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دین کی دعوت کا صحیح طریقہ حکمت اور دانائی کے ساتھ دین کی دعوت دینا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں ارشاد فرماتے ہیں :''(اے نبی!) بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت (کے ساتھ) اور بحث کیجئے ان سے اس (طریقہ) سے جو (کہ) وہ سب سے اچھا ہو‘ بے شک آپ کا رب وہ خوب جاننے والا ہے اس کو جو گمراہ ہوا اس کے راستے سے اور وہ خوب جاننے والاہے ہدایت پانے والوں کو‘‘۔ دعوتِ دین دیتے وقت اگر ان نکات کو ملحوظِ خاطر رکھ لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے دعوت کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور داعی اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کو سمیٹنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تاحیات دعوتِ دین کا کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Post a Comment

0 Comments