مثالی گھرانہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

مثالی گھرانہ


ہمارے معاشرے کے بہت سے خاندانوں میں مختلف طرح کے تنازعات پائے جاتے ہیں‘ جس کی ایک بڑی وجہ حقوق و فرائض سے لا علمی ہے۔ بہت سے گھروں میں والدین کے حقوق کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے گھرانے بھی نظر آئیں گے جن میں والدین اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور اولاد کے درمیان صنفی بنیادوں یا اپنی پسند نا پسند کی بنا پر تفریق کی جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے معاشرے میں مختلف طرح کے تنازعات جنم لیتے ہیں‘ نتیجتاً ایسے والدین اپنے بچوں سے بدگمان جبکہ بچے اپنے والدین کے بارے میں بدظنی کا اظہار کرتے ہیں۔ بدگمانی کا شکار یہ گھرانے زمانے کے نشیب و فراز اور مدوجزر کے دوران بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جن گھرانوں میں محبت‘ خیر خواہی اور خلوص اپنے عروج پر ہوتا ہے وہ گھرانے مستحکم ہوتے ہیں اور زمانے کے سرد و گرم کا مل جل کر مقابلہ کر پاتے ہیں۔

قرآن وسنت کے مطالعے کے بعد اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے جن کی معرفت حاصل کرنا مسلمان والدین کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اگر ہم والدین کے حقوق و فرائض پر غور کریں تو بہت سی قیمتی اور مفید باتیں سامنے آتی ہیں۔ والدین کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:

1۔ والدین کے ساتھ احسان : والدین کے ساتھ احسان کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تابعداری کی جائے۔ نہ تو ان کے ساتھ بے ادبی والا معاملہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو جھڑکا جائے۔ اُن کے سامنے اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھا جائے اور ان کے لیے دعائے خیر کی جائے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23‘ 24 میں والدین کے حقوق کی بڑی خوبصورت انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ ''اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحم دلی سے اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔ والدین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی احادیث میں سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ''اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے‘ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا‘ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا‘ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ 

اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ اسی طرح باقی دو مسافروں نے بھی بارگاہ الٰہی میں اپنے نیک اعمال کو پیش کیا؛ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو جو کام بہت زیادہ پسند ہیں ان میں والدین کی خدمت بھی شامل ہے۔

2۔ نافرمانی کے کاموں میں والدین کی اطاعت نہ کرنے کے باوجود ان سے حسن سلوک کرنا: قرآن وسنت کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ والدین اگر اولاد کو اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت تو نہیں کرنی چاہیے لیکن دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان کی آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اس کا کوئی علم تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف‘ پھر میری ہی طرف لوٹنا ہے۔ تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس ) کی جو تم عمل کرتے تھے‘‘۔

والدین کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کی بہت سی اہم ذمہ داریاں بھی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: 

1۔ ولادت سے پہلے نیک اولادکی دعا مانگنا: کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء سابقہ نے اپنے لیے نیک اولاد کی دعا مانگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سورہ صفات کی آیت نمبر 100 میں مذکور ہیں: اے میرے رب تو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 38 میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا ہے : ''اے میرے رب !عطا کر مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ (صالح) اولاد بلاشبہ تو دعا کو سننے (قبول کرنے) والا ہے‘‘۔

2۔ اچھا نام رکھنا: بچے کی ولادت کے بعد اُس کا اچھا نام رکھنا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن اللہ تبارک وتعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں۔ مسلمانوں کو اس طرح کے ناموں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے نام انبیاء علیہم السلام ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صلحاء رحمتہ اللہ علیہم کے ناموں پر رکھنے چائیں۔

3۔ عقیقہ: ولادت کے ساتویں دن اپنی اولاد کا عقیقہ کرنا بھی مسنون ہے۔ صحیح بخاری میں سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا‘ آپﷺ نے فرمایا کہ لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے اس لیے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے بال دور کرو (سر منڈا دو یا ختنہ کرو)۔

4۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا: بچوں کی مناسب تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرنا والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔ بہت سے والدین اپنی پیشہ ورانہ اور معاشی سرگرمیوں میں اس حد تک مشغول ہو جاتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خیر کے کاموں میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا کرتے تھے۔

5۔ اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا: اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی بہت سی نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی اولاد کوعقیدہ توحید‘ اقامت صلوٰۃ ‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ صبر اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کے حوالے سے کی تھیں۔ والدین کو ہمیشہ اچھے انداز میں اولاد کی اصلاح کے فریضے کو سر انجام دیتے رہنا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی مشغولیات اور دوست احباب پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔

6۔ بچوں کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنا: بالغ ہو جانے کے بعد بچوں کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اچھے رشتے اولاد کی زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔اس مسئلے میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب والدین اپنی اولاد کو زندگی کے طویل سفر میں الجھا ہوا اور پریشان دیکھتے ہیں ‘جبکہ اپنی اولاد کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنے والے والدین اپنے بچوں کے لیے امن وسکون اور راحت کو فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ 

7۔ اولاد کے لیے دعائیں کرتے رہنا: والدین کو اولاد کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ سورہ ابراہیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت سی دعاؤں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت اسحاق اور اسماعیل علیہما السلام کے لیے کیں تھیں۔

8۔ اولاد کے درمیان عدل کرنا: والدین کو اولاد کے درمیان عدل بھی کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ان کے والد انہیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام تحفے میں دیا ہے جو میرا تھا‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اس جیسا تحفہ دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے واپس لو۔ اسی طرح سنن ابی داود میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو‘ اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو) ۔ اگر مندرجہ بالا اصول وضوابط پر عمل کر لیا جائے تو گھروں میں ناچاقی اور نااتفاقی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور گھر امن وسکون کا گہوارہ بن سکتے ہیں۔

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Post a Comment

0 Comments