امریکا اور یورپ میں نیگروز کے ساتھ زیادتیوں اوراُس پرا حتجاج کی خبریں پڑھیں تو حضرت بلالؓ یا د آگئے۔ مکہ اور مدینہ سے محبت رکھنے والوں کے لیے حضرت بلال ؓ کی شخصیت بڑی محبوبیت رکھتی ہے۔ صدیوں پہلے آقائے ؐدو جہاں نے انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کا امتیاز ختم کر کے جو انسانی مساوات قائم کی تھی اس کی عملی صورت حضرتِ بلال ؓکے مقام اور مرتبے میں نظر آتی ہے۔ بلال ؓ کو خالقِ کائنات نے وہ اعزاز عطا فرمائے تھے کہ بڑے بڑے صحابہ ؓ جن پر رشک کرتے تھے۔ آئیے آقا ؐ کے اس محبوب صحابیؓ کی روح پرور کہانی ان کی اپنی زبانی سنئیے! ’’میں بائیس برس آقاؐ کے ساتھ رہا جب رسولؐ ِخدا اس سر زمین پر چلتے تھے، جو کچھ آقا ؐ نے کہا میں نے سنا اور جو کچھ آقاؐ نے کیا میں نے دیکھا‘‘ ۔ میرے والد رباح ایک حبشی غلام تھے مجھے ایک قریشی سردار امیّہ نے مکہ کے بازار سے خریدا۔
’’ حضرت محمدﷺ کا انقلابی پیغام زندگی کے پرانے ضابطوں کے لیے موت کا پیغام تھا۔ قریش کے سرداروں کو اپنی دستاریں اور سرداریاں ہوا میں اڑتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے وہ پیغامِ محمد ؐ کی ہر قیمت پر مزاحمت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آغاز میں چند غریب نوجوان آپ ؐ کا ساتھ دینے پر تیار ہوئے، جو بھی ایسا کرتا قریش اس کی جان کے درپے ہو جاتے اور اُس پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرا دیتے۔ اُس روز میں بحثیتِ غلام دیوار سے لگا کھڑا تھا جب وہ عمار کو لائے۔ ان لوگوں نے اسے گھُٹنوں کے بل جھکانے کی کوشش کی لیکن عمار نے اپنا سر اونچا رکھا۔ انُہوں نے پوچھا،’’ محمد ؐ تمہیں کیا سکھاتے ہیں؟‘‘ عمار نے کہا، ’’ آپؐ سکھاتے ہیں کہ تمام انسان خدا کے نزدیک برابر ہیں اور عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے جو ہم سب کا خالق ہے۔‘‘ اس پر سردار غضبناک ہو گئے۔ ابو سفیان بڑ بڑانے لگا، ہمارے تو تین سو ساٹھ خدا ہیں جو ہماری نگرانی کرتے اور رزق دیتے ہیں۔
یہ خدا ہماری عبادت بھی ہیں اور ہماری مالیات بھی۔ عمار نے پھر اسی اعتماد سے کہا، ’’محمد ؐ ہمیں سکھاتے ہیں کہ تمام انسان تمام نسلیں اور تمام رنگ خدا کے نزدیک برابر ہیں‘‘ ۔ اِس پر انھوں نے مجھے پکارا ۔ ’’بلال! تم بتاؤ ایک کبیرِ مکہ اور تمہارے درمیان کیا فرق ہے‘‘؟ اس کے چہرے پر کوڑا مارو تاکہ اسے سبق ملے‘‘۔ انھوں نے ایک دُرّہ میرے ہاتھ میں دے دیا اور عمار نے چہرہ آگے کر دیا۔ اس کی نظریں پاکیزہ ، پر سکون اور بے خوف تھیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں وہ توانائی دیکھی جو میری غلامی سے زیادہ طاقتور تھی ، اسی لمحے مجھے روشنی نظر آئی اور میں نے اپنی ملکیت تبدیل کر لی۔ میں نے کوڑا گرا دیا اور خود کو ﷲ کی رضا کے سپرد کر دیا۔ میرے ہاتھ سے دُرہ کیسے گرا؟ غلام تو اپنے آپ سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ میں نہ تو اتنا بہادر تھا اور نہ اتنا بے وقوف کہ بغاوت کرتا، پھر میں نے ایسا کیوں کیا؟، اس بات کا جواب کہاں تھا؟ صرف محمد (ﷺ) کے پاس۔ سردارروں نے مجھے زمین پر سولی سے باندھ دیا اور اُمیہ مجھے دُرے مارنے لگا۔
میں چیخ چیخ کر وہی پکارتا رہا جس کا مجھے علم تھا ۔’’خدائے واحد‘‘۔ میں جب بھی اس کا نام لیتا، وہ میرے دل میں جواب دیتا تھا۔ جب مجھ پر بڑے بڑے پتھر رکھے گئے تو میں نے آنکھیں بند کر لیں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ یکا یک میں نے اپنے سامنے ہرے بھرے میدان اور پھلوں سے لدے درخت دیکھے۔ میں نے چشموں سے بہنے کی آوازیں سنیں، میں ایک باغ میں داخل ہو گیا جہاں ہر نسل کے نوجوان مرد اور عورتیں پورے احترام سے چل رہے تھے۔ انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور ایک چشمے پر لے گئے جیسے ہی میں سیراب ہوا میری روح کی پیاس بجھ گئی اور مجھے محسوس ہوا میں اپنے ﷲ کے پاس ہوں‘‘… ’’اور پھر ایک شریف النفس انسان ابو بکر ؓ نے دو سو درہم میں مجھے خرید لیا۔ میں پانچ دن ابوبکر ؓ کے گھر پڑا رہا۔ چھٹی صبح میں اٹھنے کے قابل ہوا تو ابو بکرؓ بہت خوش ہوئے، انھوں نے مجھے بتایا کہ حضرت محمدؐ خود تمہارے سرہانے تین دن تک تمہارے لیے دعا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ تمہارا بخار ختم ہو گیا۔ کل ہم دونوں حضور ؐ کے پاس چلیں گے۔
میں جب پیغمبرِ خدا سے ملا تو وہ ایک معمولی چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے میری طرف دیکھا تو آپ ؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ساتھ بیٹھے علی ؓ سے کہا اس شخص نے ﷲ کو خوش کیا ہے۔ پھر خدا کے پیغمبر ؐ اُٹھے اور مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا ’’ بلال تمہارے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جائے گا کہ تم پہلے شخص تھے جس پر اسلام کی خاطر تشدد کیا گیا‘‘۔ ’’پھر محمد ﷺ میرے بازو پکڑ کر گھر لے گئے، مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ میں پہلے کبھی کسی قریش کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا، میری تو حیثیت ہی کھڑے رہنے والے کی تھی ۔ میں اب آسمانوں پر اُڑ رہا تھا‘‘۔ ’’پھر رسولِ ؐخدا نے مجھے اسلام کے بارے میں سمجھاتے ہوئے بتایا کہ ’’اسلام رضائے خدا کے سامنے خود سپردگی کا نام ہے، اسلام تمام انسانوں سے اچھے سلوک کا نام ہے ، ہر نسل، ہر حیثیت اورہر رنگ کے انسان اسلام میں برابر ہیں‘‘ ۔ محمد رسول اللہﷺ سے میری پہلی ملاقات ختم ہو گئی۔
’’ میں ابو بکر ؓ کے پاس رہتا تھا جو غلاموں کے سارے کام خود کرتے تھے۔ میں نے آزاد کرنے پر ابوبکر ؓ کا شکریہ ادا کیا تو وہ میرے شکر گذار ہوئے۔ انھوں نے کہا آقا ؐ نے فرمایا ہے غلام کو آزاد کرنا خدا کی خوشنودی کا باعث ہوتا ہے، پھر انھوں نے مجھے لکھنے اور پڑھنے کی ترغیب دی‘‘۔ ’’پیغمبر خدا ؐ نے زندگی کا جو نیا نظریہ دیا تھا، اس میں حکم دیا گیا تھا کہ صاحبِ جائیداد انھیں حصہ دیں جن کے پاس نہیں ہے، خواہ وہ دولت ہو، پیداوار ہو یا ساز و سامان ہو ۔ یہ کمزوروں کو حقوق دینے والا انقلاب تھا۔ ابو سفیان بہت بڑا دانشور تھا، اُس نے خطرہ بھانپ لیا تھا۔ لہٰذا اس نے اور دوسرے سرداروں نے حضرت محمدؐ کو پیشکش کی بے پناہ دولت کی بھی اور اقتدار کی بھی۔ لیکن ﷲ کے پیغمبر ؐنے ہر پیشکش ٹھکرا دی‘‘۔ ’’میں بلال غلام ابنِ غلام کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں انسانوں کا رہبر بنایا جاوںگا۔ مکہ کے سرداروں کا ظلم و ستم نا قابلِ برداشت ہو گیا تو ہمیں مکہ چھوڑ دینے کا حکم ہوا۔
ہم مختصر گروہوں میں مکہ سے مدینہ کو روانہ ہوتے رہے۔ وقفے وقفے کے بعد رات کے وقت۔ ہمارے گروہ میں چھ مرد ، دو عورتیں اور تین بچے تھے۔ ایک بچے کو خود حضرت محمدﷺ ایک میل تک لے گئے۔ پھر آپ ؐ نے ہمیں آگے جانے کی اجازت دی۔ اب میں اپنے گروہ کا راہنما تھا۔ گرمیوں میں یہ سفر نو دنوں کا تھا۔ بچوں کے ساتھ گیارہ دنوں کا۔ چھٹے دن ہمیں حمزہ ؓ مل گئے۔ شیروں کو ڈرا کر بھگاتے، گرے ہوؤں کو اٹھاتے، پیچھے رہ جانے والوں کو آگے بڑھنے کی ہمت دلاتے اور حفاظت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ حضرت محمد ؐ نے طے کیا ہے کہ وہ مکہ میں اس وقت تک قیام کریں گے جب تک ہر شخص باہر نہ چلا جائے۔ ہم گہرے خدشات اور وسوسوں میں گھر گئے۔ ہم مدینہ پہنچ کر ہر روز آقا ؐ کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
پھر ایک روز دوپہر کے ذرا بعد شور بلند ہوا اور، پھر سب دوڑ پڑے۔ پیغمبرِ اسلامﷺ مدینہ پہنچ گئے۔ مکہ سے مدینہ کا ھمارا یہ سفر ﷲ کے ہاں اتنا مقبول ہوا کہ جب تک دنیا میں گھڑیاں چلیں گی ہمارے نقشِ قدم قائم رہیں گے۔ ھمارا کیلینڈر ہمارے سفرِ ہجرت سے شروع ہوا۔ آقا ؐ کی اونٹنی قصویٰ ایک دو جگہوں پر رکنے کے بعد ایک جگہ بیٹھ گئی اورآپ ؐ نے اعلان فرمایا میں یہاں قیام کروںگا اور یہیں اپنی مسجد بناؤںگا۔ صبح سویرے کام شروع ہو گیا۔ آقا ؐ نے خود نیزے کی انی سے پانچ اونچے کجھور کے درختوں کے درمیان مسجد کے لیے لکیریں کھینچیں، حضورﷺ جس طرح کا خطرناک سفر کر کے آئے تھے، کوئی دوسرا ہوتا تو ایک ہفتہ بستر سے نہ اُٹھتا ۔ مگر آقا ؐ دوسرے روز ہی کام پر لگ گئے اور سب کے ساتھ پتھر ڈھوتے اور سیڑھیاں چڑھتے رہے‘‘۔ ’’پھر مسجد بن گئی مگر علی ؓ نے بتایا کہ کوئی چیز کم ہے جس سے لوگوں کو بلایا جاسکے، وہ کیا ہو؟ جھنڈا ، گھنٹا، طبل، قرنا یا نقارہ ، کوئی بھی مطمئن نہیں تھا۔
پھر عبد اللہ بن زید ؓ حضور ؐ کے قریب آئے اور کہا، یارسول اﷲﷺ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ انسانی آواز ہمیں نماز کے لیے بلا رہی ہے، آقا ؐ نے فرمایا ، ’’تمہارا خواب خدا کی طرف سے تھا۔ ایسا ہی ہو گا‘‘۔ لیکن کونسی آواز؟ نرم ، سریلی یا گرجدار، تب میں نے محسوس کیا کہ حضور ﷺ کا ہاتھ میرے کندھوں پر ہے ’’تمہاری آواز بلال‘‘ میں نے پوچھا یا رسولؐ ﷲ کیسے بلاؤں ؟ کیا کہوں؟ فرمایا ’’ پہلے خدا کی حمد کہو ، پھر رسالت کا اعلان کرو، پھر نماز کی طرف بلاؤ اور پھر خدا کی حمد اور بس۔ اور پھر میں دینِ حق کا پہلا مؤذن بن گیا۔ میں نے اذان دی تو آقا ؐ نے فرمایا، اب میری مسجد مکمل ہو گئی ہے۔
0 Comments