ذرا رکیے، ذرا ٹھہریے اتنی افراتفری اور جلد بازی کس بات کی ہے، یہی نا کہ زندگی کے بہت سے کام آپ کو آواز دے رہے ہیں، مسائل کی بھری گٹھڑی آپ کے ناتواں کاندھوں پر ہے، ذمے داریوں کے بوجھ نے کمر کو خمیدہ کر دیا ہے، دوڑنے کی بات تو دور کی ہے چلنا مشکل ہے، غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، کوتاہیاں گلے لگ جاتی ہیں، اپنوں کی حق تلفی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور پڑوسیوں کے حقوق بھی پریشان کرتے ہیں کہ ادائیگی کرنے کا وقت ہی میسر نہ آیا، جائیداد کے بٹوارے میں بھی بیٹی کا حق دینے سے نہ کہ قاصر رہا بلکہ اسے بوجھ سمجھا بلکہ تمام نیکیوں کی تکمیل کا منبع عورت کو ہی جانا کہ سب اچھے کام اس کے اور برے اور بدی کے امور انجام دینا اس کی اہم ذمے داری ٹھہری اور پھر اگر اللہ نے کچھ تخلیقی و تعمیری صلاحیتوں سے نواز دیا تو شہرت کی طلب نے بے شمار قابل قدر لوگوں کو پیروں تلے کچل ڈالا۔
نہ شرمندگی اور نہ پشیمانی، دوسروں کا مال اپنا سمجھا، پلاٹوں اور زمینوں پر قبضے کرتے اور ذخیرہ اندوزی کر کے، خیرات و زکوٰۃ کی رقم ہضم کرتے ذرا لاج نہ لائی اور زبانی جمع خرچ کی طرح توبہ بھی کر لی، کانوں کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے روبرو ہاتھ بھی جوڑ لیے، صدقے کے بکرے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے ذبح کروا دیے لیکن اس مال سے جو حق تلفی کر کے حاصل کیا گیا تھا خیرات، زکوٰۃ اور حج و عمرے کا بھی یہی حال ہے دولت یتیموں اور بیواؤں کی ہے اور حق اپنا ہے۔ ذرا سوچیے کہ یہ نیک اعمال بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جائیں گے، نادان ہے انسان جو سب کچھ جانتے بوجھتے فریب کی چادر اوڑھے جہنم کے اس راستے پر دوڑتا چلا جا رہا ہے، جسے وہ اپنی منزل سمجھتا ہے۔ توبہ کا دروازہ نزاع کے عالم سے پہلے تک کھلا رہتا ہے۔ اس کے بعد توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن توبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ کام آیندہ نہیں کرنے ہیں جن کے کرنے سے مخلوق خدا پر ظلم اور اپنے رب کی نافرمانی ہوتی ہے۔
بندہ بشر نے اس قدر گناہ کیے کہ اب اسے گناہ پر ندامت نہیں ہوتی ہے، بلکہ فخر ہوتا ہے، حیا ایمان کی شاخ ہے، زندگی کے ہر معاملے میں حیا کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ انسان ہی کیا جو حیا سے محروم ہو، لیکن آج بے حیائی عروج پر ہے، غیر قوموں کا شعار اپنا لیا ہے ان کے ہی رسم و رواج تہذیب و تمدن اور ان کا ہی لباس پسندیدہ بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرما دیا کہ جو شخص غیر مسلموں کی مشابہت کرے گا اس کا انجام دنیا میں برا اور وہ انھی کے ساتھ روز قیامت میں اٹھایا جائے گا صرف بات اتنی سی ہے کہ دنیا کی کشش اور اس کی طلب کھینچے لیے جا رہی ہے اور قرآن کی تعلیمات کو فراموش اس لیے کیا گیا کہ وہ کہیں دنیاوی فوائد سے محروم نہ ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے کہ ’’حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیاوی فائدوں پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں، قیامت کے روز اللہ ان سے ہرگز بات نہ کرے گا۔ نہ انھیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کے لیے دردناک سزا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے ذلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا، کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی لیکن جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ (البقرہ۔176)
اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہم سب سیدھے سچے راستے سے بہت دور نکل گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ پچھلی قوموں پر عذاب کیوں نازل ہوا تھا کہ وہ تباہ و برباد ہو گئیں اور نشان عبرت بن گئیں بالکل اسی طرح انھوں نے آیات کو بیچا تھا اور سچائی کے منکر بن کر کذب کی طرف دوڑے تھے اور آج ہمارا اپنا بھی یہی حال ہے، تو پھر ہم سب کو عذاب کے لیے تیار رہنا چاہیے اگر ہمیں اس بات پر اطمینان حاصل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت عذاب سے محفوظ رہے گی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ پڑھنے اور قرآن پاک کے مطالب و مفاہیم سے ناواقفیت اس کی وجہ ترجمہ و تفسیر سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث اس راہ سے دور ہو گئے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دکھائی تھی، سب کچھ جانتے بوجھتے گناہوں کی دلدل میں اس طرح پھنس گئے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی کفار کے رنگ میں رنگ گئے اور اسلامی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں کیا ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کہلوانے کے حقدار ہیں؟ تو پھر عذاب نہ سہی عذاب نما بیماریاں سانحات اور حادثات ضرور جنم لیں گے۔
اللہ نے فرمایا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ بے شک ایسا ہی ہے۔ ویسے تو قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہوتی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک کی پیش گوئیاں حقیقت بن کر سامنے آگئی ہیں سائنسدان اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سچی توبہ کے ساتھ غیر اسلامی شعار سے اپنا دامن بچا لیا جائے۔ زندگی بہت مختصر اور بے وفا ہوتی ہے۔ جانا تو ہے ہی تو کیوں نہ پاکیزہ زندگی گزار کر رخصت ہوں۔ اللہ اور رسولؐ کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع مل جائے۔
0 Comments