انسانی معاشرے ہمیشہ بیماریوں کی لپیٹ میں رہے ہیں اوران بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کے لیے حکماء‘ اطباء اور ماہر معالجین ہمیشہ سر توڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہ ماہر اطباء اور معالجین جب بھی کسی بیماری کا علاج دریافت کرتے ہیں تو کوئی نئی بیماری سامنے آ جاتی ہے۔ بیماریوں کے تدارک کے لیے ایک عرصے سے کوششیں جاری وساری ہیں لیکن اس کے باوجود مہلک اور وبائی امراض کی وجہ سے ہر عہد میں بہت سی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا رہا ہے۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ وبائی امراض اپنے جلو میں خوف وہراس کو بھی لیے ہوئے آتے ہیں۔ جب بھی کوئی وبائی بیماری سامنے آتی ہے تو جہاں پر متاثرہ افراد کے علاج ومعالجے کی کوششیں کی جاتی ہیں وہیں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام کا ایک حصہ نفسیاتی بیماری کا بھی شکار ہو جاتا ہے ۔
نفسیاتی دباؤ کو بڑھانے میں افواہ ساز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو بیماری کی سنگینی کو کہیں زیادہ بڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں معاشرے میں خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم ہو جاتی ہے۔ ماضی میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ پر عوام میں بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ دیکھنے کو ملا ۔ حالیہ ایام میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر بھی عوام میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ ان مہلک اور وبائی بیماریوں سے بچاؤ اور ان کا علاج کروانے کے لیے جہاں پر مریضوں کو ماہر معالجین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پر بہت سی روحانی تدابیر کو اختیار کر کے بھی انسان ان بیماریوں کو مقابلہ کر سکتا ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے پر بیماریوں اور مصیبتوں کے تدارک کے حوالے سے بہت سی قیمتی باتیں ملتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ توبہ واستغفار: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30‘31 میں ارشاد فرمایا : ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگرز کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے۔ اور نہیں ہو تم ہرگز عاجز کرنے و الے (اسے) زمین میں اور نہیں تمہارا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور نہ کوئی مدد گار‘‘۔ اسی طرح سورہ روم کی آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوا: خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لیے کہ ان کے بعض اعمال کا پھل اللہ انہیں چکھا دے ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں‘‘۔ مذکورہ بالا آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی تکالیف کا انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں سے بڑا گہرا تعلق ہے؛ چنانچہ جب انسان توبہ واستغفار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں نتیجتاً اس کی پریشانیاں بھی دور ہو جاتی ہیں۔
2۔ تقویٰ: جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے انسان گناہوں سے اجتناب کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے ـ) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔
3۔ دعا: اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی فریادوں کوسننے والے ہیں؛ چنانچہ جب بندہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکے دعا مانگتا ہے تو اس کے مصائب سے نکلنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتے ہیں : '' اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھے پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر 62 میں ارشاد ہوا: ''(کیا یہ بت بہتر ہیں ـ) یا جو (دعا) قبول کرتا ہے لاچار کی جب وہ پکارتا ہے اُسے وہ دور کرتا ہے تکلیف کو اور وہ بناتا ہے تمہیں جانشین زمین میں کیا کوئی (اور) معبود ہے اللہ کے ساتھ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو‘‘۔ ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کی وجہ سے مصائب کو دور فرماتے ہیں۔ دعا کی قبولیت کے حوالے سے صحیح بخاری میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا‘ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ تینوں اشخاص نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غار کے پتھر کو ہٹا دیا اور تینوں اشخاص غار سے باہر آ گئے۔ اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت بڑی رہنمائی موجود ہے کہ مصائب کتنے ہی گمبھیر کیوں نہ ہوں جب انسان خلوصِ نیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مصائب کو دور فرما دیتے ہیں۔
4۔ سورہ فاتحہ کا ورد: سورہ فاتحہ اُم الکتاب ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں ہر مرض کی شفاء کو رکھا ہے؛ چنانچہ جب امراض حملہ آور ہوں تو ایسی صورت میں سورہ فاتحہ کے ورد سے امراض دور ہو جاتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کی تلاوت اور دم سے روحانی امراض ہی دور نہیں ہوتے بلکہ جسمانی امراض بھی دور ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے‘ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ کے پاس اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں‘ لیکن انہوں نے مہمانداری نہیں کی‘ بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا‘ قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی‘ لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔
ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو؛ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا‘ لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا‘ آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اُٹھ کر چلنے لگا‘ تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔
5۔ معوذات کا ورد: قرآن مجید کی آخری دو سورتیں یعنی (سورہ فلق اور سورہ ناس) میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیماریوں سے بچاؤ کے غیر معمولی اثرات رکھے ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں مذکور معوذات کو بھی دم کے لیے پڑھنا چاہیے۔ اس عمل کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کو پناہ عطا فرما دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے۔اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺ بیما ر ہو تے تو آپ خود پر معوذات ( معوذتین اور دیگر پناہ دلوانے والی دعائیں اور آیات ) پڑھتے اور پھونک مارتے۔
6۔ قرآن مجید کی تلاوت: سورہ فاتحہ ‘سورہ فلق سورہ ناس اور آیتہ الکرسی کی علاج کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت ہے‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر بھی قرآن مجید کی تلاوت سے انسان بیماریوں سے شفاء یاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن (میں) سے (وہ کچھ) جو (کہ) وہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے اور نہیں وہ زیادہ کرتا ظالموں کو مگر خسارے میں‘‘۔
7۔ آب زم زم ‘ شہد اور کلونجی کااستعمال: قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شہد میں انسانی بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔ اسی طرح حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ کلونجی میں بھی انسانوں کی جملہ بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔ اسی طرح آب زم زم میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیماریوں کے لیے شفاء رکھی ہے۔ اگر ان اشیا کو استعمال کر لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سے مہلک امراض سے انسان کو نجات دلا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب بیمار مسلمانوں کو شفاء یاب فرمائیں اور جو صحت یاب ہیں انہیں عافیت عطا فرمائے۔
0 Comments