حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے انسان کا سیدھے راستے پر رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ہدایت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ جس کا دنیا جہان کی کوئی نعمت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بلاشبہ صحت‘ مال ‘جاگیر ‘ جوانی اور حسن جیسی تمام نعمتیں اپنی اپنی جگہ پر معنی خیز ہیں ‘لیکن ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بلند مقام ہدایت اور ایمان کا ہے ‘ اگر ایمان اور ہدایت کی نعمت نہ ہو تو یہ تمام نعمتیں بے معنی اور بلا مقصد ہو جاتی ہیں اور اگر ہدایت کی نعمت دولت موجود ہو تو ان ساری نعمتوں کی بھی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے۔ فرعون حکمران تھا‘ قارون سرمایہ دار تھا‘ شداد جاگیر دار تھا ‘ہامان ایک بڑے منصب پر فائز تھا‘ ابو لہب مکہ کا سردار اور دولت تھا‘ لیکن یہ تمام لوگ اس لیے ناکام اور نامراد ٹھہرے کہ یہ ہدایت سے محروم تھے۔ اس کے مد مقابل دنیا میں بہت سے کامیاب حکمران گزرے ‘جن میں حضرت یوسف ‘ حضرت طالوت‘ حضرت داؤد ‘ حضرت سلیمان علیہم السلام شامل ہیں‘اسی طرح خلفائے راشدین بھی اپنے عہد کے کامیاب حکمران تھے۔
دنیا میں بہت سے کامیاب تاجر بھی گزرے ‘جن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نام ِ نامی سرفہرست ہے‘ اسی طرح دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی گزرے ‘جو مادی اعتبار سے کمزور تھے‘ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ایمان اورہدایت کے سبب سر بلند فرما دیا۔ حضرت سمیہؓ اور حضرت بلالؓ کا نام انہی عظیم ہستیوں میں شامل ہے کہ جنہوں نے ہدایت اور ایمان کے سبب حقیقی کامیابیوں کو حاصل کر لیا۔ الغرض کہنے کا مطلب ہے کہ جہاں پر ہدایت کی نعمت انتہائی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے‘ وہیں پر گمراہی کے راستے پر چل جانا سب سے بڑی ناکامی ہے‘ لہٰذا میری نظر میں ان حقائق کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان وجوہات کو سمجھنا بھی ضروری ہے‘ جو انسان کو گمراہی کے راستے پر چلانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان گمراہی اور ناکامی کی وجوہات کو بہت ہی اچھے انداز میں سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ گمراہی کی بعض وجوہات درج ذیل ہیں۔
آباؤاجداد کی اندھی تقلید
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور اس کے نبیوں کے پیغام کو چھوڑ کر ہر دور میں بہت سے لوگ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کے راستے پر چلتے رہے۔ نتیجتاً وہ راہ ہدایت سے بھٹک گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جب کہا جائے‘ ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے اللہ نے (تو ) کہتے ہیں ‘ بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس کی) جو ہم نے پایا ہے‘اس پر اپنے آباؤ اجداد کو حالانکہ کیا؛ اگرچہ ہوں ان کے آباؤ اجداد نہ سمجھتے کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں۔‘‘ اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 23‘ 24 میں ارشاد ہوا: ''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا‘ مگر اس (بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے) نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو انہوں نے کہا؛ بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو انکار کرنے والے ہیں۔‘‘
اپنی مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو
بہت سے لوگ اس لیے راہ ِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں کہ وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کی ہر بات کو بغیر تحقیق کے بلاچون و چرا تسلیم کر لیتے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ کے بعد یہ مقام کسی کو بھی حاصل نہیں کہ ان کی ہر بات کو بلاچون و چرا تسلیم کیا جائے۔ علماء اور مذہبی رہنماؤں سے علم حاصل کرنا درست ہے‘ لیکن ان کی ہر بات کو بلا دلیل تسلیم کرنے کی بجائے ان کی مستند اور مثبت باتوں کو قبول کر لینا چاہیے اوران کی غیر ثابت شدہ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے چلن کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علما کو اور اپنے درویشوں کو (اپنا ) رب‘ اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو (بھی) حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے‘ مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی ‘ نہیں ہے کوئی معبود ‘مگر وہی پاک ہے ‘وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ اہل اسلام کو یہود ونصاریٰ کے طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرتے ہوئے محتاط روش کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مذہبی رہنماؤں کی عزت اور احترام تو ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن ان کی ہر بات کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے اور ان کی ایسی باتیں جو درست اور ثابت شدہ نہ ہوں‘ ان کو تسلیم کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کی بات کو حرف آخر سمجھنا چاہیے۔
اپنے سرداروں اور چوہدریوں کی بات کو بلا چون وچرا تسلیم کرنا
گمراہی کا ایک بڑ ا سبب یہ بھی ہے کہ اپنے سرداروں کی بات کی ہر بات کو بلاچون و چرا تسلیم کر لیا جائے۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی بات کو چھوڑ کر اپنے سرداروں کی بات کو تسلیم کرتے ہیں‘ قیامت کے دن ناکام ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 66‘ 67 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے ‘ اُن کے چہرے آگ میں وہ کہیں گے اے کاش !ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی۔ اور وہ کہیں گے؛ اے ہمارے رب بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی تو اُنہوں نے گمراہ کر دیا ہمیں (سیدھے) راستے سے۔‘‘
بری صحبت
انسان کی ناکامی اور تباہی کا ایک بڑا سبب بری صحبت کو بھی اختیار کرنا ہے۔ بعض لوگ نیکی کے راستے پر چلتے چلتے بری صحبت کی وجہ سے برائی کے راستے پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کے بگاڑ کی بھی ایک بڑی وجہ غلط صحبت بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ فرقان کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ‘ظالم اپنے ہاتھوں کو کہے اے کاش! میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس ) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقعہ پر) چھوڑ جانے والا۔ (یعنی دغا دینے والا ہے) ‘‘۔
نفسانی خواہشات کی پیروی
انسان کی نفسانی خواہشات بھی اس کی بہت بڑی دشمن ہیں اور اس کو راہ ِ ہدایت سے بھٹکا دیتی ہیں۔ بہت سے لوگ شریعت اور دین کی باتوں کو درست سمجھتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود نفس کے ہاتھوں اس حدتک مغلوب ہو جاتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 23 میں ان لوگوں کا ذکر کیا‘ جنہوں نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ ارشاد ہوا: ''تو (بھلا) کیا آپ نے دیکھا (اسے) جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے (بھی) اسے گمراہ کر دیا (جو) علم کے باوجود (گمراہ ہو رہا ہے) اور مہر لگا دی اس کے کان اور اس کے دل پر ڈال دیا اس کی آنکھ پر پردہ پھر کون ہدایت دے سکتا ہے‘ اسے اللہ کے بعد تو (بھلا) کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
خوف اور لالچ
انسان کو سیدھے راستے سے بھٹکانے والے عناصر میں خوف اور لالچ بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ بااثر لوگوں کے خوف اور دباؤکی وجہ سے راہ حق پر چلنے سے قاصر ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ دنیاوی مفادات ‘ عہدے اور لالچ کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو ہر حالت میں مقدم رکھنا چاہیے اور رزق اور زندگی کا مالک فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو سمجھنا چاہیے اور اُس کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نہ کسی ظالم کا ظلم اس کی زندگی کو کم کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی جابر کا جبر اس کے رزق کو روک سکتا ہے‘ اگر ان نکات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو انسان صراط ِمستقیم پر گامزن رہ سکتا ہے اور جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ناکامی اور گمراہی سے محفوظ فرمائے!( آمین)
0 Comments