رزقِ حلال : رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

رزقِ حلال : رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے

دین اسلام چوں کہ کامل نظام حیات ہے، اس لیے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لیے راہ نمائی موجود ہے۔ دین اسلام کے دیے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہو گا وہ حلال شمار ہو گا۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو حرام رزق سے بچنے اور رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’اللہ تعالیٰ خود طیّب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیّب ہو۔‘‘ (صحیح مسلم) صحیح بخاری میں حضرت مقدام بن یکربؓ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائناتؐ نے فرمایا، مفہوم : ’’ اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں، جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کر کے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی داؤدؑ اپنے دست کاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘ (صحیح بخاری)

اُم المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوا، اور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ) نبی رؤف و رحیم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہے۔ ‘‘ (کنز العمال) نماز، زکوٰۃ، روزے اور حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض رزق حلال کمانا ہے۔ اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو دین اسلام روزی کمانے سے اُسے منع نہیں کرتا، بل کہ روزی کمانے کے لیے کچھ حدود و قیود مقرر کرتا ہے تاکہ اُن حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے رزق حلال کمائے۔ رزق حلال میں برکت ہوتی ہے اور رزق حرام دیکھنے میں زیادہ، لیکن حقیقت میں اُس میں برکت نہیں ہوتی۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے واسطے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل ) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہو گا جو حرام کھانے سے بڑھا ہو اور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل، بیہقی) ہم مسلمان جانتے ہیں کہ انبیاء و رسلؑ کو اللہ تعالیٰ نے ’’حبیب اللہ ‘‘ نہیں فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم ﷺ کو ’’حبیب اللہ ‘‘ فرمایا، اور ہمارے آقا مدنی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔‘‘ کتنی فضیلت والی بات ہے اُن کے لیے جو رزق حلال کماتے ہیں کہ لسان نبوتؐ نے انہیں اللہ کا دوست ہونے کی بشارت دی ہے، یہ کوئی عام فضل و عنایت نہیں ہے۔

اسی طرح اولیائے کرامؒ کا معمول رہا کہ وہ رزق حلال کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ وقت کے بادشاہ ان کے پاس نذرانے بھیجتے لیکن یہ حضرات انہیں قبول نہ فرماتے بل کہ واپس بھیج دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ بہت بڑے محدث، فقیہ اور ولی اللہ گزرے ہیں، اُن کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت کیا معاملہ پیش آیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے لیکن میرے گھر کے سامنے جو لوہار تھا اُسے بلند مرتبہ ملا ہے۔ وہ شخص حیران ہوا، صبح اُس کی بیوی سے جاکر ملا اور پوچھا کہ تیرا شوہر کون سا ایسا عمل کرتا تھا کہ اسے جنت میں عبداللہ بن مبارک سے بھی اونچا رتبہ ملا ہے۔

اُس کی بیوی نے کہا اور تو خاص نہیں، ایک تو جب آخر شب عبداللہ بن مبارک نمازِ تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو یہ کہتا تھا کہ اے اللہ! کاش میرے رزق میں فراخی ہوتی تو میں بھی رات کے اس پہر تیرے سامنے سر بہ سجود ہوتا، اور دوسرا اس کا عمل یہ تھا کہ جب یہ دکان پر ہتھوڑا مارنے کے لیے اوپر اٹھاتا اور اذان ہوجاتی تو فوراً ہتھوڑا پیچھے کی جانب گرا دیتا تھا کہ اللہ نے پکارا ہے۔ بس یہ دو عمل تھے اس کے اور تو کچھ خاص نہیں۔ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ رزق حلال کمانے کی برکت اور کسب حلال کے ساتھ اللہ کے فرائض کی پابندی ایسا عظیم الشان عمل ہے، جس سے انسان بڑے بڑے زاہدوں سے بھی روزِ محشر بڑھ سکتا ہے۔

حضرت سید محمد بندہ نواز گیسو درازؒ فرماتے ہیں : ’’ اس زمانے میں لوگ لقمۂ حلال کی بالکل پروا نہیں کرتے، جو چیز نظر آتی ہے آنکھیں بند کر کے کھا جاتے ہیں اور پھر تاویل کرتے ہیں کہ یہ یوں ہے اور یوں نہیں ہے، شریعت ہمارے لیے کیا چیز حلال کرتی ہے اور ہم مسلمانوں کا کیا حال ہو گیا ہے، نہ حلال کی پروا کرتے ہیں نہ حرام کی، اور حرام کو مباح بنا کر کھا جاتے ہیں، اکثر یہ ہوتا ہے حلال اور حرام کے متعلق صریحی اور قطعی نصوص کو ترک کر دیا جاتا ہے اور بعض ظنی اور بعید از قیاس آیات و احادیث سے استدلال کر کے حرام کو حلال بنا دیا جاتا ہے۔‘‘ (حوالہ: شرح جوامع الکلم)

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ جب ٹرین پر سفر کرتے تھے تو سامان کا وزن خود کراتے تھے جتنا سامان زیادہ ہوتا اُس اضافی سامان کی رقم جمع کراتے۔ ایک بار ایک ٹکٹ کلکٹر نے کہا کہ حضرت آپ رقم جمع نہ کرائیں، فلاں اسٹیشن تک میں خود ہوں اُس کے بعد جو ٹکٹ کلکٹر آئے گا میں اُسے کہہ دوں گا ، وہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ بھائی وہ کہا ں تک جاتا ہے۔ اس ٹکٹ کلکٹر نے کہا حضرت جہاں تک ٹرین جائے گی۔ تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے اور میری منزل روزِ محشر ہے، اگر وہاں تک تمہاری رسائی ہے تو بتاؤ۔ وہ خاموش ہو گیا اور حضرت تھانوی ؒ نے اضافی سامان کی اضافی رقم جمع کرا دی۔

اسی طرح حضرت تھانوی ؒ نے ایک بزرگ عالم کو خلافت عطا فرمائی۔ ایک دن وہ حضرت سے ملنے آئے اور ساتھ اپنے فرزند کو بھی لائے۔ حضرت تھانوی ؒ نے پوچھا بھائی کیسے آئے؟ انہوں نے کہا حضرت ٹرین سے آئے ہیں۔ حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی اس بچے کی عمر کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تیرہ سال۔ تو حضرت نے فرمایا کہ بچے کی ٹکٹ کتنی لی؟ انہوں نے کہا: حضرت دیکھنے میں بارہ کا ہی لگتا ہے اس لیے آدھی ٹکٹ لی ہے۔ تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی جو شخص سرکار کا حق مار سکتا ہے وہ مخلوق خدا کو کیا فائدہ دے گا۔ اور اُس بزرگ سے خلافت واپس لے لی۔

آج ہم نہ رسول کریم ﷺ کے فرمودات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں، اور نہ ہی اصحاب رسول ؓ یا آل رسول ؓ کے نقوش پا پر چل رہے ہیں، اولیائے کرامؒ سے محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتے لیکن ان کی تعلیمات سے رُوگردانی کر رہے ہیں، اور ہماری خواہش ہے کہ پھر سے دنیا میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہو، تو اس کے لیے ہمیں اسلاف سے رشتے کو مضبوط تر کرنا ہو گا۔ نوجوان نسل کو اسلاف کی زندگی اور اُن کے کارہائے نمایاں سے روشناس کرانا ہو گا، تاکہ ان میں اپنے اسلاف کے نقش پا پر چلنے کا جذبہ پیدا ہو، تب ہی ہم دوبارہ مسند عروج پر متمکن ہو سکتے ہیں۔

عبد المنان معاویہ

Post a Comment

0 Comments