سلامتی کا راستہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

سلامتی کا راستہ

سیدھے راستے کی طرف ہدایت اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایسی نعمت ہے، جس
کو بندۂ مومن ہر نماز میں بار بار اللہ تعالی سے مانگتا ہے۔ اللہ تعالی نے خود ہدایت مانگنے کا حکم فرمایا ہے۔ مسلمان جب نماز پڑھتا ہے، تو سورۃ فاتحہ میں کہتا ہے، مفہوم: ’’ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔‘‘ اللہ تعالی نماز پڑھنے والے مومن کی دعا پر لبّیک کہتے ہوئے فرماتا ہے، مفہوم: ’’ یہ میرے بندے کے لیے ہے، اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اُس نے مانگا۔‘‘ (مسلم) اللہ تعالی قرآن مجید میں اپنے انبیائے کرام علیہ السلام کا تذکرہ کر کے فرماتا ہے، مفہوم: ’’ ہم نے اِن سب کو منتخب کر کے راہ راست تک پہنچا دیا۔‘‘ (سورۃ الانعام)

ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اُس نے انہیں چُن لیا تھا، اور اُس کو سیدھے راستے تک پہنچا دیا تھا۔‘‘ (سورۃ النحل) ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو فرماتے ہیں، مفہوم: ’’ابا جان! میرے پاس ایک ایسا علم ہے، جو آپ کے پاس نہیں آیا، اِس لیے میری بات مان لیجیے، میں آپ کو سیدھا راستہ بتلا دوں گا۔‘‘ (سورۃ مریم) موسی اور ہارون علیہما السلام کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ’’ اور اِن دونوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دی۔‘‘ (سورۃ الصافات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ’’ اور تاکہ اپنی نعمت تم پر مکمل کر دے، اور تمہیں سیدھے راستے پر لے چلے۔‘‘ (سورۃ الفتح)

ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہے، مفہوم: ’’ لہذا تم پر جو وحی نازل کی گئی اُسے مضبوطی سے تھامے رکھو۔ یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔‘‘ (سورۃ الزخرف) انبیائے علیہم السلام کے بارے میں اِن نصوص سے دو باتیں سمجھ آتی ہیں، ایک یہ کہ ہدایت اتنی بڑی نعمت ہے، کہ اللہ تعالی اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کو اِس نعمت سے سرفراز کرنے کے بعد بہ طور احسان اُس کا تذکرہ فرماتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ سیدھا راستہ وہی ہے، جس پر انبیائے کرام علیہم السلام تھے۔ اِس نعمت کی عظمت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے صحابہ کرامؓ کو سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔

مسند احمد کی روایت ہے، عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیدھا خط کھینچ کر فرمانے لگے : یہ اللہ تعالی کا راستہ ہے، پھر اُس کے دائیں بائیں بہت ساری لکیریں کھینچیں، اور فرمانے لگے: ان راستوں میں سے ہر ایک پر ایک شیطان موجود رہتا ہے، جو لوگوں کو اِس راستے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، مفہوم: ’’ اور (اے پیغمبرؐ! اِن سے) یہ بھی کہو کہ: یہ میرا سیدھا راستہ ہے، لہذا اِس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستے کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے۔‘‘ (سورۃ الانعام)

ہدایت مانگنے کا مطلب یہ ہے، کہ اے اللہ! ہمیں اُس دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما، جو آپ کو پسند ہو، اور جس کی طرف آپ انبیائے علیہم السلام لوگوں کو بلاتے تھے۔ اللہ تعالی خود ہدایت کا معنی متعین فرماتا ہے، مفہوم: ’’ (اے پیغمبرؐ) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا، جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یک سُو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔‘‘ (سورۃ الانعام)

اِس آیت سے یہ بات معلوم ہو گئی، کہ سیدھے راستے پر چلنے کے لیے شرک کو چھوڑنا ضروری ہے۔ سیدھے راستے کا مصداق متعین کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم : ’’اِن لوگوں کے راستے کی جن پر تُو نے انعام کیا۔‘‘ (سورۃ الفاتحہ) پھر انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں ہے، مفہوم: ’’اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ اُن کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء) ہدایت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’ اور یہ کہ تم میری عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ (سورۃ یٰس)

اِس سے یہ بات ثابت ہو گئی، کہ اللہ تعالی کی راہ نمائی اور عبادت کے بغیر سیدھا راستہ پانا مشکل ہے۔ اِس دارالاسباب میں اللہ تعالی نے ہر چیز کو کسی نہ کسی سبب سے جوڑ رکھا ہے۔ اِس لیے اِس کو پانے کے لیے بھی شریعت نے مختلف اسباب مقرر کیے ہوئے ہے۔ پہلا سبب، اللہ تعالی پر ایمان لانا : اللہ تعالی پر ایمان لانا ہدایت اور سیدھا راستہ پانے کا پہلا سبب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’ چناں چہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں، اور انہوں اُسی کا سہارا تھام لیا ہے، اللہ اُن کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل کرے گا، اور انہیں اپنے پاس لانے کے لیے سیدھے راستے تک پہنچائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)

دوسرا سبب، قرآن پر عمل کرنا: جو لوگ قرآن مجید کو اپنا راہ نما بنا لیتے ہیں، وہ خود بہ خود سیدھا راستہ پا لیتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’ یہ کتاب ایسی ہے، کہ اِس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے، اِن ڈر رکھنے والوں کے لیے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) مطلب اِس آیت کا یہ ہے، کہ قرآن تو ہر ایک کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، لیکن فائدہ انہی کو پہنچتا ہے، جو اِس کی بات کو مان کر اِس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کرے۔ تیسرا سبب، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی مکمل اتباع: ہدایت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے، کہ مسلمان بندہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’ اور اِس میں کوئی شک نہیں، کہ تم لوگوں کو وہ سیدھا راستہ دکھا رہے ہو، جو اللہ کا راستہ ہے۔‘‘ (سورۃ الشوری) تفسیر قرطبی والے فرماتے ہیں: ’’ یعنی آپ ایسے دین کی دعوت دیتے ہو، جس میں کوئی کجی نہیں ہے۔‘‘ اِس آیت سے یہ بات معلوم ہو گئی، کہ جو آدمی جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا متبع ہو گا، اُس قدر ہدایت پر ہو گا۔ چوتھا سبب، علم ِ دین حاصل کرنا: آدمی جس قدر قرآن اور حدیث کے علوم سے بہرور ہو گا، اُس قدر حق اور باطل میں تمیز پر قادر ہو گا، اور اُسے سیدھے راستے کی پہچان میں آسانی ہو گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ مفہوم: ’’ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے، وہ خوب سمجھتے ہیں، کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے، وہ حق ہے، اور علم اُس اللہ کا راستہ دکھاتا ہے، جو اقتدار کا مالک بھی ہے، اور ہر تعریف کا مستحق بھی۔‘‘ (سورۃ سباء)

پانچوں سبب، اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا: خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی دعاؤں مین ہدایت کی دعا کو بھی شامل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ خود بھی ہدایت کی دعا مانگا کرتے تھے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی ہدایت مانگنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ آپؐ کی مسنون دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے، مفہوم: ’’ اے اللہ! مجھے سیدھا راستہ دکھا۔‘‘ (مسلم) ہدایت ملنے کے بعد بندے کو اللہ تعالی اُن اعمال کی توفیق عطا فرماتا ہے، جو اللہ تعالی کو پسند ہو، اُسے اپنی رضا عطا فرماتا ہے، اور اُسے سلامتی والے راستوں پر چلاتا ہے، حتی کہ اُسے سلامتی والے گھر یعنی جنّت میں داخل کردیتا ہے۔

اے اللہ! پوری امت کو ہدایت عطا فرما۔ آمین

محمد کامران ہوتی

Post a Comment

0 Comments