گناہ اور شریعت کی نافرمانی

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

گناہ اور شریعت کی نافرمانی

ہر وہ کام جو شریعت کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف ہو، گناہ کہلاتا ہے۔ ﷲ
تعالیٰ نے جن اعمال کے کرنے سے منع کیا ہے، اس کی اصل حقیقت تو ﷲ رب العزت خود ہی جانتا ہے۔ عقلی اعتبار سے غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان اعمال کے کرنے سے کسی کا حق ضائع ہوتا ہے اور کسی کا حق ضائع کرنا، چاہے وہ اﷲتعالیٰ کا ہو یا کسی مخلوق کا ، نہایت بڑا ظلم ہے۔ یا ان اعمال کے کرنے سے انسانی زندگی کا امن متاثر ہوتا ہو اور معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنا کھلا فساد اور معصیت ہے۔ یا ان اعمال کے نہ کرنے کا حکم اﷲتعالیٰ کی طرف سے بندوں کی آزمائش وامتحان ہے، لہٰذا انسان اگر ان اعمال کو کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اﷲتعالیٰ کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر فسق اور بغاوت اور کیا ہو گی؟

٭ گناہِ کبیرہ کی تعریف

ایسی تمام نافرمانیاں جن کے کرنے پر شریعت کی طرف سے سزا مقرر کی گئی ہو، جن کے کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں لعنت کے الفاظ آئے ہوں، جن کے کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہو، جن کے کرنے پر عذاب کی وعید بیان کی گئی ہو اور جن اعمال کو کافرانہ اعمال کہا گیا ہو وغیرہ وغیرہ یہ گناہ کبیرہ کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گناہ اورنافرمانیوں کو گناہ صغیرہ کہا جاتا ہے، لیکن اگران نافرمانیوں کو عادت بنا لیا جائے تو وہ بھی کبیرہ بن جاتی ہیں ۔ علمائے کرام نے قرآن مجید اور احادیثِ طیبہ کے ذخیرے سے ان اعمال کو جمع فرمایا ہے، جنہیں گناہ کبیرہ کہا گیا ہے ،ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

٭ شرک اور شرک کے علاوہ وہ عقائد اور وہ اعمال جن سے کفر لازم آتا ہے۔

٭ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔

٭ جادو سیکھنا، سکھانا اور کرنا، کرانا۔

٭ فرض نماز کو چھوڑنا یا وقت سے پہلے پڑھنا یا قضا کر کے پڑھنا۔

٭ زکوٰۃ بالکل نہ دینا یا پوری نہ دینا۔

٭ بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ دینا یا روزہ رکھ کر توڑ دینا۔

٭ حج فرض ہو جانے کے باوجود نہ کرنا یہاں تک کہ انتقال ہو جائے۔

٭ والدین کو تکلیف دینا اور ان کی نافرمانی کرنا۔

٭ رشتے داروں سے قطع تعلق کرنا۔

٭ زنا کرنا اور کرانا۔

٭ بدفعلی کرنا یا کرانا۔

٭ سود لینا یا دینا یا سودی معاملے کی دستاویز لکھنا یا گواہ بننا۔

٭ ظلماً یتیم کا مال کھانا۔

٭ ﷲ تعالیٰ یا اس کے رسول ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا۔

٭ میدانِ جہاد سے بھاگنا۔

٭ حاکم کا اپنی رعایا کو دھوکہ دینا اور ان کے ساتھ خیانت کرنا۔

٭ تکبر کرنا۔

٭ جھوٹی گواہی دینا۔

٭ شراب یا کوئی نشہ والی چیز بنانا، بنوانا، بیچنا، خریدنا، لاد کر لے جانا، کھانا پینا، کھلانا پلانا وغیرہ۔

٭ جوا کھیلنا۔

٭ کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا۔

٭ مالِ غنیمت میں خیانت کرنا۔

٭چوری کرنا۔

٭ ڈاکہ ڈالنا۔

٭ جھوٹی قسم کھانا۔

٭ کسی پر ظلم کرنا خواہ کسی بھی طرح کا ظلم ہو، مثلاً مارنا، گالی دینا یا کسی کا مال لے لینا۔

٭ حرام مال کھانا، پینا، پہننا یا خرچ کرنا بیچنا، خریدنا، کسی کوتحفہ دینا، ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا۔

٭ خودکشی کرنا یا بلا وجہ اپنا کوئی عضو کاٹ دینا۔

٭ لوگوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ لگانا تجسس کرنا۔

٭ کاہن یا نجومی وغیرہ کی باتوں کو صحیح ماننا اور ان کی تصدیق کرنا۔

٭ شوہر کی نافرمانی کرنا۔

٭ تصویر بنانا یا گھر میں لٹکانا۔

٭ ﷲ کے کسی ولی کو تکلیف دینا۔

٭ تہہ بند یا شلوار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا۔

٭ ﷲ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو جانا۔

٭ گانے بجانے کا پیشہ اختیار کرنا۔

٭علمائے کرام اور حاملین قرآن کے حق میں بدگوئی کرنا۔

٭ کسی مسلمان کو کافر کہنا۔

٭ ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان انصاف نہ کرنا۔

٭عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔

٭ کھانے کو عیب لگانا۔

٭ کسی کے گھر میں بغیر اجازت نظر ڈالنا یا بغیر اجازت داخل ہونا۔

٭ بیوی کو طلاق بائن ومغلظہ دے دینے کے باوجود اس کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنا۔

٭ عورتوں کا نامحرموں سے پردہ نہ کرنا۔

٭ مردوں کا عورتوں کی، عورتوں کا مردوں کی شباہت اختیار کرنا۔

٭ ملازم کا طے شدہ فرائض کوانجام نہ دینا۔ وغیرہ وغیرہ

قرآن کریم میں اعمال صالحہ پر کار بند رہتے ہوئے منع کردہ بڑی بڑی برائیوں سے بچنے والوں سے اﷲ تعالیٰ جو قادر مطلق بھی ہے اور مختار کل بھی، پہلا وعدہ یہ فرما رہا ہے کہ ہم تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کو معاف فرماتے رہیں گے۔ اس دنیا میں نفس و شیاطین کی دشمنیوں میں پھنسے ہوئے بندوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے زبردست حوصلہ افزائی ہے کہ وہ نفس و شیاطین کے غلبے کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ اگر انہوں نے بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کیا تو ہماری طرف سے چھوٹی چھوٹی برائیوں سے درگزر کیا جاتا رہے گا۔

گناہوں کے صادر ہونے کی وجوہات

٭ انسان کے اندر خیر (بھلائی) کے ساتھ ساتھ شر (برائی) کا بھی مادہ رکھا گیا ہے۔

٭ انسان کے ساتھ نفس کو بھی رکھا گیا ہے جو اکثر انسانوں کو برائی ہی کی طرف آمادہ رکھتا ہے اور بھلائی پر خود بڑی مشقت کے بعد آمادہ ہوتا ہے۔

٭ انسان پر اس کے ازلی دشمن شیطان کو ایسی فوقیت دی گئی ہے کہ وہ انسان کے اندر دوڑنے والے خون کی مانند غلبہ رکھتا ہے۔ شیطان ہر طرف سے ہر طرح حملہ آور ہو کر انسان سے گناہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ کوشش اس ڈھٹائی کے ساتھ جاری رکھتا ہے کہ انسان کے توبہ کر لینے اور ﷲ تعالیٰ کے توبہ قبول کر لینے کے بعد بھی مایوس نہیں ہوتا۔

٭ انسان کے اندر بھول کا مادہ بھی رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ ﷲ تعالیٰ کے مواخذے، اس کی پکڑ، حساب اور سزا کو بھلا بیٹھتا ہے اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کے مقابلے میں انسان کو مرضی اور ارادے کی قوت دی گئی ہے، صحیح اور غلط کو سمجھنے کی عقل سلیم عطا کی گئی ہے۔ انبیا علیہم السلام کے ذریعے بھلائی اور برائی کے راستوں کو خوب واضح طور پر کھول کھول کر بتلا دیا گیا ہے۔ انسان کے اندر اگر برائی کے راستے پر چلنے کی استعداد ہے تو اسے نیکی کے راستے پر چلنے کی قوت بھی دی گئی ہے۔ ان سب ناقابلِ تردید حقیقتوں کے باوجود اس بات کے امکانات یقینی طور پر تاحیات موجود رہتے ہیں کہ (انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ) صاحب ایمان لوگوں سے گناہ صادر ہوں۔ اس پریشانی کا علاج رب غفورو رحیم نے یہ عنایت فرمایا کہ اعمالِ صالحہ پر کار بند رہو، بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے رہو ،ہم اس کے بدلے تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرماتے رہیں گے۔

گناہ اوربرائیوں کی معافی کی صورتیں
٭ ﷲ تعالیٰ محض اپنے لطف وکرم سے معاف فرما دیں۔

٭ تمام اعمال صالحہ جس میں توبہ بھی شامل ہے کی وجہ سے معاف ہو جائیں۔

٭ ذکرﷲ، تعلیم دین اور دین کی تبلیغی مجلسوں میں شرکت کی وجہ سے معاف ہو جائیں۔

حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر ایک پاکیزہ اور معصوم فطرت ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے نفرت کرتا ہے لیکن اگر وہ گناہوں میں مبتلا رہے تویہ فطرت ایسی متاثر ہوتی ہے کہ انسان گناہوں سے نفرت کی بجائے انہیں پسند کرنے لگ جاتا ہے۔ لہٰذا اگر انسان تمام آسانیوں اور ترغیبات کے باوجود اپنے آپ کو بڑے بڑے گناہوں سے بچانے کا پختہ عزم و ارادہ کر لے اوربچنے کی کوشش شروع کر دے تو اس کے نتیجے میں اس کی کھوئی ہوئی فطرت دوبارہ اپنی اصلی حالت پر بحال ہو جاتی ہے اور اسے گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اس حالت کو گناہوں کے معاف ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

مفتی محمد نعیم

Post a Comment

0 Comments