ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، جس کو ظن بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر دُور سے دُھواں اُٹھتا دیکھ کر آگ کی موجودی کا خیال آنا، یہ گمان ہی ہے۔ بنیادی طور پر گمان یعنی ظن کی دو قسمیں ہیں: حسن ظن یعنی اچھا گمان اور سُوئے ظن یعنی بُرا گمان، جسے بدگمانی بھی کہتے ہیں۔ بدگمانی کے متعلق ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے، مفہوم : ’’ اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو، بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بعض گمانوں کو گناہ قرار دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام فخرالدین رازیؒ لکھتے ہیں: ’’ کیوں کہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، کیوں کہ ممکن ہے کہ کرنے والا اُسے بھول کر کر رہا ہو یا دیکھنے والا ہی غلطی پر ہو۔‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی بدگمانی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلٰہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’بدگمانی سے بچو، بے شک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔‘‘ ایک اور موقع پر خاتم المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان کا خون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔‘‘ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے، مفہوم: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گمان رکھا، بے شک اس نے اپنے رب عزوجل سے بُرا گمان رکھا۔‘‘
علامہ اسمٰعیل حقیؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ گمان کی طرف اس وقت تک پیش رفت نہ کی جائے جب تک کہ مظنون (یعنی جس کے بارے میں دِل میں گمان آئے) کے بارے میں غور و فکر نہ کر لیا جائے، چناں چہ اگر مظنون نیک ہے تو اس پر معمولی وہم کی وجہ سے بدگمانی نہ کی جائے بلکہ احتیاط برتی جائے اور تم اس وقت تک کسی کے ساتھ بدگمانی نہ کرو جب تک کہ تمہارے لیے حسن ظن رکھنا ممکن ہو، رہا فساق کا معاملہ تو ان کے ساتھ ایسی بدگمانی رکھنا جائز ہے جو ان کے افعال سے ظاہر ہو۔ اسی طرح اُمور معاش یعنی دُنیاوی معاملات اور معاش کے مہمات میں بدگمانی کرنا جائز بلکہ ان اُمور میں بدگمانی موجب سلامتی ہے۔‘‘ البتہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بُرا گمان رکھنا ممنوع (حرام) ہے۔ جس طرح کہ کوئی یہ گمان رکھے کہ اﷲ عزوجل مجھے رزق نہیں دے گا یا میری حفاظت نہیں فرمائے گا یا میری مدد نہیں کرے گا‘ وغیرہ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فرمان نصیحت ہے: ’’ اپنے بھائی کی زبان سے نکلنے والے کلمات کے بارے میں بدگمانی مت کرو جب تک کہ تم اُسے بھلائی پر محمول کر سکتے ہو۔‘‘ کسی کے ظاہری لباس کی سادگی دیکھ کر اسے حقیر نہیں جاننا چاہیے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ گدڑی کا لعل ہو۔ جیسا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ وآلٰہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت سے بوسیدہ کپڑوں والے ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر اﷲ عزوجل کی قسم کھالیں تو اﷲ عزوجل ان کی قسم پوری فرماتا ہے۔‘‘
حافظ ابو نعیم اصفہانیؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت سیدنا بکر بن عبداﷲ ؒجب کسی بوڑھے آدمی کو دیکھتے تو فرماتے: یہ مجھ سے بہتر ہے اور مجھ سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا شرف رکھتا ہے اور جب کسی جوان کو دیکھتے تو فرماتے: یہ مجھ سے بہتر ہے کیوں کہ میرے گناہ اس سے کہیں زیادہ ہیں اور فرماتے: اے بھائیو! تم پر ایسے امر کا اختیار کرنا لازم ہے کہ جس میں تم درست ہو تو اجر و ثواب کے حق دار ٹھہرو اور اگر تم خطا پر ہو تو گنہ گار نہ ہو اور ہر ایسے کام سے بچو کہ اگر تم اس میں درست ہو تو تمہیں اجر نہ ملے اور اگر تم اس میں خطا کے مرتکب ہو جاؤ تو گناہ گار قرار پاؤ۔‘‘ ان سے پوچھا گیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’لوگوں سے بدگمانی رکھنا۔ کیوں کہ اگر تمہارا گمان درست ثابت ہوا تو بھی تمہیں اس پر اجر و ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر گمان غلط ثابت ہوا تو گنہ گار ٹھہرو گے۔‘‘
حضرت سیدنا مکحول دمشقیؒ فرماتے ہیں: جب تم کسی کو روتا ہوا دیکھو تو تم بھی رونے لگو اور اسے ریاکاری نہ سمجھو، میں نے ایک دفعہ کسی شخص کے بارے میں یہ خیال کیا تو میں ایک سال تک رونے سے محروم رہا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلٰہ وسلم مسجد میں (معتکف) تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں‘ وہ اپنے کمروں کو چلی گئیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدتنا صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ’’ ٹھہرو میں بھی (تھوڑی دیر بعد) تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ چلے تو دو انصاری صحابہؓ ملے جو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر آگے بڑھ گئے‘ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو بلا کر ارشاد فرمایا: ’’یہ (میری زوجہ) صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کی: سبحان اﷲ! یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے تو میں نے خوف محسوس کیا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے۔‘‘
شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے کاموں سے بچا جائے جو کسی کو بدگمانی میں مبتلا کر سکتے ہوں۔ علماء و مقتدا ہستیوں کو تو بہ طور خاص ہر اُس کام سے بچنا چاہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے بدظن ہو جائیں اگرچہ اس کام میں ان کے لیے خلاصی کی راہ موجود ہو، کیوں کہ بدظن ہونے کی صورت میں لوگ ان کے علم سے نفع نہیں اُٹھا پائیں گے۔‘‘
0 Comments