قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خیر کی ہر بات اپنے بندوں کو واضح طور پر بتا دی اور ہر وہ چیز جس میں نقصان ہے، اس پر بھی متنبہ کر دیا۔ فرمان رسولؐ کی روشنی میں برکت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ تھوڑا سا مال جو انسان کے گزارے کے لیے کافی ہو، وہ بہتر ہے اس مال سے جو زیادہ ہو، لیکن انسان کو غفلت میں ڈال دے۔ اسی طرح وہ بندہ کام یاب ہو گیا جو مسلمان بن کر زندگی بسر کرتا ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کثرتِ مال برکت نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ انسان بابرکت ہے، جو دنیا میں مسکین بن کر زندگی بسر کرتا ہے، لیکن اپنی آخرت پر نظر رکھتا ہے۔ اس انسان کی وجہ سے اللہ پورے گھر یا محلے میں برکتیں نازل فرماتا ہے۔ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ضمانت دی ہے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: مجھے تلاش کرنا ہو تو کم زور لوگوں میں تلاش کرنا، جن کی معاشرے میں اہمیت نہیں ہوتی، جن کی کوئی بات نہیں سنتا۔ تمہیں رزق بھی انہی کم زور لوگوں کی وجہ سے ملتا ہے۔ اللہ اس امت کی مدد، اس کے نیک لوگوں کی وجہ سے کرتا ہے۔ مسکینوں سے منہ موڑ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ رحمت اور خیر آپ سے روٹھ گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے، جب تک ان کے ساتھ کسی مسکین کو کھانا کھانے کے لیے نہ بٹھایا جاتا، وہ مضطرب ہو جاتے تھے۔ ہم بھی جس دن کسی مسکین کی مدد نہ کر سکیں یا مسکین کو دیکھا نہ ہو اور ہم بے چین ہو جائیں، بے قرار ہو جائیں، تو سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ میں خیر و برکت کا عنصر پیدا کر دیا ہے۔
آج میں اپنا جائزہ لوں کہ اگر میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں، کاروباری ڈیل کر رہا ہوں اور اچانک کوئی مسکین کچھ مانگنے آ جائے، تو اس وقت اپنے دل کی کیفیت دیکھا کریں۔ اگر آپ ناگواری محسوس نہیں کرتے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ نے خیر کو سمجھ لیا ہے۔ خیر و برکت ختم کرنے والی بنیادی چیز انسان کے گناہ ہیں۔ جہاں گناہ ہوتے ہیں وہاں سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ بر و بحر میں جو فساد آیا ہے، اس کی وجہ تمہارے کرتوت ہیں۔‘‘ انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے جب فساد آئے گا تو خیر و برکت ختم ہو جائے گی۔ دنیا میں فساد پر سزا اس لیے ہے کہ شاید انسان واپس لوٹ آئے، توبہ کر لے۔ بلاشبہ اللہ رب العزت بڑا بخشنے والا ہے، اگر ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں پکڑتا، تو فوری ہم پر عذاب نازل کر دیتا، یہ اللہ ہمیں مہلت دیتا ہے۔ اس ضمن میں اللہ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ اگر انسان کو اس کے گناہوں کی وجہ سے سزا دیتا تو زمین پر ایک چوپایہ بھی زندہ نہ رہتا۔‘‘
برکت ختم ہونے کی دوسری وجہ کاروبار میں دھوکا دینا ہے۔ گاڑی فروخت کرنا ہو تو اصل بات نہیں بتاتے، کوئی سودا کیا جائے تو اکثر لوگ غلط بیانی کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کی تجارت میں سے اللہ تعالیٰ برکت چھین لیتا ہے۔ پیسے زیادہ بھی مل گئے تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔ تیسری چیز جھوٹ بولنے کے ساتھ جھوٹی قسم کھانا ہے۔ اسی طرح انسان کسی نکمی چیز کا صدقہ کرے، تو نہ اس بندے کو برکت ملے گی اور نہ ہی اس کے مال میں برکت ہو گی۔ آج ہم استعمال شدہ اور ناکارہ چیزوں کا صدقہ کرتے ہیں۔ کوئی چیز پرانی ہو جائے تو اس کا صدقہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کسی کے پاس صدقہ لینے بھیجا تو اس نے ایک مریل سی اونٹنی صدقہ کر دی (حالاں کہ دین اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ انسان کی کسی بہتر چیز پر ہاتھ نہ رکھو کہ یہی لے کر جانا ہے کیوں کہ اسے اختیار ہے وہ اپنی مرضی سے جو بھی دے).
جب وہ صحابیؓ پیارے پیغمبر ﷺ کے پاس مریل سی صدقے کی اونٹنی لے کر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خراب ہوا۔ افسردہ ہو گئے کہ اس بندے کے پاس اتنا مال ہے اور اس نے یہ نکمی سی اور کم زور سی اونٹنی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا کہ یااللہ اس بندے کو بھی برکت نہ دے اور اس کے اونٹوں میں بھی برکت نہ دے۔ محدثین نے لکھا ہے کہ یہ بد دعا قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے، جو کوئی نکمی چیز صدقہ کرتے ہیں۔ جب اس بندے کو علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے ہیں، تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اللہ سے معافی مانگی کہ یااللہ غلطی ہو گئی ہے اور پھر بڑی خوب صورت اونٹنی لے کر آیا، جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔ اسی طرح بارش بھی اللہ کی طرف سے برکت ہے۔ لوگ جب اپنے مالوں کی زکوۃ دینا بند کر دیں گے، تو اللہ تعالیٰ آسمانوں سے رحمتیں، برکتیں اور بارش نازل کرنا بند کر دیں گے۔
ایک بڑی وجہ ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے۔ اس گناہ کے مرتکب افراد بھی برکت سے محروم رہتے ہیں۔ ترازو میں ڈنڈی ماری جائے گی، تو اخراجات میں سختی آ جائے گی اور حکمرانوں کے ظلم برداشت کرنا پڑیں گے۔ قحط جیسی ذلت آ جائے گی۔ کم تولنے والوں پر کمائی میں شدت آجائے گی۔ کمانے میں پریشانی آجائے گی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں ایک طرف کفر و شرک موجود تھا، تو دوسری طرف وہ ناپ تول میں کمی کی مرتکب بھی تھی، جس کی وجہ سے وہ تباہ و برباد ہو گئی۔ آج بھی معاشرے میں ناپ تول میں کمی موجود ہے۔ پتا بھی ہوتا ہے، مگر اپنی مجبوری بنا دیتے ہیں۔ جب یہ حال ہو تو برکتیں اور رحمتیں کیسے نازل ہوں گی؟ آج دیکھیں پٹرول، دودھ اور عام خور و نوش کی چیزیں کیا ہمیں پورے وزن میں ملتی ہیں؟ الاماشاء اللہ۔ ناپ تول والی خرابی پر کنٹرول کرنا یہ ہر بندے کے ذمے ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: وزن پورا کر کے فروخت کرو۔ اگر یہ سب کچھ نہیں کرو گے تو پھر قحط سالی کی لپیٹ ہو گی۔ مہنگائی، مشقت اور حکم رانوں کا ظلم تم پر عام ہو جائیں گے۔ اسی طرح تقدیر پر راضی نہ ہونا بھی انسان کے اموال اور گھروں میں بے برکتی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مال کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ جو بندہ اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے سے مال پر راضی ہو گیا، اللہ کی تقسیم پر خوش ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت پیدا کر دے گا۔ اس تھوڑے مال کو بھی زیادہ کر دے گا۔ اسی لیے جو اللہ نے دے دیا، اس پر راضی ہونا چاہیے۔ ان امور پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
0 Comments