تبلیغی جماعت کیا ہے, تبلیغ کا کام کیسے ہوتا ہے؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

تبلیغی جماعت کیا ہے, تبلیغ کا کام کیسے ہوتا ہے؟

اتوار کو لاہور کے قریب رائیونڈ کے علاقے میں جب تبلیغی جماعت کی مرکزی شوریٰ کے امیر حاجی عبدالوہاب کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تو اس میں شرکت کے لیے ملک کے طول و عرض اور بیرونِ ملک سے بھی ہزاروں افراد وہاں پہنچے۔
حاجی عبدالوہاب کا انتقال لاہور کے ایک ہسپتال میں علالت کے بعد تقریباً 95 برس کے عمر میں ہوا تھا۔ حاجی عبدالوہاب کے جنازے میں شرکت کے لیے ان کے معتقدین کی اتنی بڑی تعداد لاہور آئی کہ اس موقع پر پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی طرف سے کراچی سے لاہور کے لیے خصوصی پرواز کا انتظام بھی کیا گیا۔

حاجی عبد الوہاب سے قربت رکھنے والے پاکستان کالج آف فیزیشئنز اینڈ سرجنز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خالد مسعود گوندل نے بی بی سی کو بتایا کہ حاجی عبدالوہاب کی نماز جنازہ میں دنیا بھر سے علما کرام اور ان کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ ہزاروں ایسے افراد بھی تھے جو رش اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کر سکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حاجی عبدالوہاب نے ساری زندگی دعوت تبلیغ کے لیے وقف کر رکھی تھی اور تقریباً 70 سال تک وہ دعوت کے کام سے منسلک رہے۔

تبلیغی جماعت کیا ہے؟

تبلیغ کا لفظی معنی ہے دوسروں کو دین کی دعوت دینا یا تلقین کرنا ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تبلیغی جماعت کی ابتدا سب سے پہلے ہندوستان سے سنہ 1926 یا 1927 میں ہوئی جہاں مولانا محمد الیاس نامی ایک عالم دین نے اس کام کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں مولانا محمد الیاس نے دعوت کے کام کی شروعات دہلی کے مضافات میں آباد میواتی باشندوں کو دین کی تعلیم دینے سے کی لیکن کچھ عرصے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ اس طریقہ کار کے تحت ادارے تو وجود میں آ رہے ہیں لیکن اچھے مبلغ پیدا نہیں ہو رہے جو دوسروں کو دین کی تعلیم دے سکے۔ لہذا انھوں نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور اس طرح انھوں نے دہلی کے قریب واقع نظام الدین کے علاقے سے باقاعدہ طورپر بحیثیت تبلیغ کے کام کا آغاز کر دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ تبلیغی جماعت کا پہلا اجتماع سنہ 1941 میں انڈیا میں ہوا جس میں تقریباً 25 ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔ 1940 کے عشرے تک یہ جماعت غیر منقسم ہندوستان تک محدود رہی لیکن پاکستان بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس جماعت نے تیزی سے ترقی کی اور اس طرح یہ تحریک پوری دنیا تک پھیل گئی۔ آج کل اس تحریک کے سب سے زیادہ حامی براعظم ایشیا میں بتائے جاتے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہے جہاں یہ کام اپنے عروج کو چھو رہا ہے۔ انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق آج کل تبلیغ کا کام تقریباً 200 ممالک میں ہوتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کام سے آٹھ سے دس کروڑ کے قریب افراد منسلک ہیں۔ یہ جماعت اب دنیا بھر میں مسلمانوں کی سب بڑی جماعت بھی سمجھی جاتی ہے۔ تبلیغی جماعت کا سب بڑا اجتماع ہر سال بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے رائیونڈ کے مقام پر بھی سالانہ تبلیغی اجتماع کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان شرکت کرنے آتے ہیں۔

تبلیغ کا کام کیسے ہوتا ہے؟
اس تحریک کی بنیاد اسلام کے چھ بنیادی اصولوں پر رکھی گئی ہے جس میں کلمہ، نماز، علم و ذکر، اکرام مسلم (مسلمان کی عزت کرنا)، اخلاص نیت اور دعوت و تبلیغ شامل ہے۔ تحریک سے منسلک افراد کے مطابق اس تحریک کا واحد مقصد یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان سو فیصد اللہ کے احکامات اور پیغمبر اسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ تبلیغی جماعت نے عام لوگوں کو دعوت یا تبلیغ کا کام سمجھانے کے لیے ایک نصاب بھی مقرر کیا ہوا ہے جس کے تحت ابتدائی طورپر اس کام سے روشناس ہونے کے لیے تین دن گھر سے نکل کر جماعت میں لگانے پڑتے ہیں اور پھر اس طرح 40 دن، چار مہینے اور ایک سال کے لیے بھی لوگ ملک سے باہر یا ملک کے اندر تبلیغ کا کام کرنے کے لیے جایا کرتے ہیں۔ 

تبلیغی جماعت کا بنیادی عقیدہ سنی مسلک کا ہے لیکن ان کے اجتماعات میں دیگر مسالک کے افراد بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ اس تحریک سے وابستہ افراد کا ماننا ہے کہ یہ تحریک سیاست اور فرقہ واریت سے مکمل طورپر پاک ہے اور نہ ہی یہ اختلافی مسلکی مسائل پر یقین کرتی ہے۔ تبلیغی جماعت میں عام طورپر اختلافی مسائل اور ملکی سیاست پر بات کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔

کھلاڑی اور فنکار تبلیغی جماعت میں
پاکستان میں ویسے تو تبلیغی جماعت سے ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد منسلک ہیں لیکن ان میں فوج کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران، تعلیمی اداروں کے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور کئی بیوروکریٹ بھی باقاعدہ سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ فنکار اور مختلف کھیلوں کے قومی سٹارز بھی ان کے اجتماعات میں شرکت کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ وقت صرف کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بعض اہم سابق کھلاڑی تو مستقل طورپر تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہو چکے ہیں جن میں سعید انور، محمد یوسف، انضمام الحق اور ثقلین مشتاق قابل ذکر ہیں۔ 

اس تحریک میں نوجوان طبقہ بھی کافی فعال نظر آتا ہے۔ پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں یہ کام بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ اکثر لوگ تبلیغی جماعت کو ’خاموش انقلاب‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ واحد جماعت ہے جو کسی سے کچھ مانگنے کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ لوگوں کو اللہ اور اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید یہی ان کی بڑی کامیابی کی بڑی وجہ ہے۔

رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
 

Post a Comment

0 Comments