حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ : ایک خدا ترس صحابی

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ : ایک خدا ترس صحابی

حد درجہ مقامات ادب کا تصور کریں تو رسول اکرم ﷺ ، آپؐ کا خاندان، صحابہ کرامؓ، تابعین، اولیاء کرام ادب کے اعلیٰ ترین مقام پر متمکن نظر آتے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ ادنیٰ صحابیؓ کا مقام بڑے سے بڑے ولی اللہ سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ان مقامات ادب کا ذکر کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں ادب کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ یہ احتیاط عقیدت سے پھوٹتی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ان عزیز ترین ہستیوں کا ذکر عقیدت کے آنسوئوں کی نمی اور خون دل کی روشنائی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا لیکن جب کوئی معزز کالم نگار آفتاب رسالت ؐ کے ستاروں میں سے کسی کا ذکر رواروی میں اس طرح کرے کہ اس سے تھوڑا سا ابہام پیدا ہوتا ہو تو پھر ان پر لکھنے کے لئے اللہ پاک سے رہنمائی مانگتا ہوں اور سامان بخشش سمجھ کر بوجھ اٹھا لیتا ہوں۔ 

حضرت ابوذر غفاریؓ کا ذکر ہوا تو جی چاہا کہ دستیاب مواد کی روشنی میں ان کی عظمت کا خاکہ، بےشک مختصر، قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کی عظمت، عشق رسولؐ ، عشق الٰہی، جذب و مستی، دنیا سے دوری، فاقہ کشی اور ایثار و بہادری کا اندازہ ان کے قبول اسلام کی تفصیل سے ہوتا ہے لیکن کالم کی مجبوری ہے کہ ذکر مختصر ہو۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ انتہائی قدیم الاسلام تھے اور مسلمان ہونے سے قبل ہی توحید پرست اور عبادت گزار تھے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں وہ چوتھے نمبر پر آتے ہیں (بحوالہ نقوش رسول نمبر جلد نمبر8 صفحہ نمبر 466) آپؓ مزاجاً تارک الدنیا تھے اور آپؓ کا شمار اصحاب صُفہ کی اعلیٰ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے بارے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ حضرات جنت میں میرے قریب ترین ہوں گے۔

حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر ؓ ہمہ وقت خدمت نبوی ؐ میں مصروف رہتے تھے اور مسجد ہی عملی طور پر ان کا گھر تھا۔ حضرت ابوذرؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے جب وہ مسجد میں اوندھے منہ سوئے ہوئے تھے۔ آپؐ نے انہیں ٹھوکر ماری اور فرمایا اے جندب (ابوذر اصلی نام) اس طرح منہ کے بل لیٹنا شیطان کا لیٹنا ہے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ (المعروف داتا گنج بخشؒ) کشف المجحوب میں فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ کی احادیث میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے ابوذر غفاریؓ اور سلمانؓ کے درمیان برادری قائم کی۔ یہ دونوں اہل صُفہ کے سپاہی اور باطن کے رئیسوں میں سے تھے۔ 

ایک دن سلمان ؓ ، ابوذر ؓ کے گھر آئے۔ ابوذرؓ کی اہلیہ نے سلمانؓ کے روبرو ابوذرؓ کی شکایت کی کہ تیرا یہ بھائی دن بھر روزے سے رہتا ہے اور رات کو سوتا نہیں۔ سلمان ؓ نے کہا کہ کھانے کی کوئی چیز لائو۔ جب کھانا لایا گیا تو آپؓ نے ابوذرؓ سے کہا’’اے میرے بھائی تجھے میری موافقت کرنی چاہئے کیونکہ یہ تیرا روزہ فرض نہیں ہے‘‘، چنانچہ ابوذرؓ نے ان کے ساتھ کھانا کھایا، جب رات ہوئی تو سلمان ؓ نے کہا کہ ’’بھائی اب سونے میں بھی آپ ؓ کو میری موافقت کرنی چاہئےکیونکہ تیرے وجود کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔‘‘ دوسرے روز ابوذرؓ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں بھی وہی کہتا ہوں جو کچھ کل سلمانؓ نے تجھ سے کہا تھا۔ (ص 361)

حضرت ابوذرؓ کا اسلام لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے درج ہے لیکن میں اسے اختصار سے بیان کروں گا تاکہ آپ ان کے عشق کی جھلک ملاحظہ کر سکیں۔ آپ ؓ اللہ کے آخری رسول ؐ کی تلاش میں مکہ معظمہ تشریف لائے اور کئی روز تک حرم شریف میں مقیم رہے۔ بالآخر رضائے ا لٰہی سے ان کا رابطہ حضرت علیؓ سے ہوا جن کے پیچھے وہ محتاط اور خفیہ انداز سے حضور اکرمؐ کے گھر پہنچے۔ فرماتے ہیں،عرض پرداز ہوا کہ آپؐ مجھ پر اسلام پیش کریں۔ آپؐ نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے مجھ سے فرمایا:اے ابوذرؓ اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جائو، جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل ا س کا اعلان کروں گا۔ 

اس کے بعد میں مسجد حرام آیا، قریش موجود تھے میں نے کہا، قریش کے لوگو!اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ لوگوں نے کہا، اٹھو اس بے دین کی خبر لو، لوگ اٹھ پڑے اور مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجائوں لیکن حضرت عباس ؓ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے، تمہاری بربادی ہو، تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہے ہو؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہو کر جاتی ہے، اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جو کچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا کہ اٹھو اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہو چکا تھا اور آج بھی حضرت عباس ؓ ہی نے مجھے آبچایا۔ وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔
(بحوالہ الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری صفحات (190-92) ایمان افروز تفصیل حیاۃ الصحابہ ؓ تالیف مولانا محمد یوسف کاندھلوی میں دی گئی ہے۔

سبحان اللہ حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ نے حضرت ابوذر غفاریؓ کے زہد کو آٹھ لفظوں میں سمو دیا ہے۔ اصحاب صُفہ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ابوذر جندب بن جنادہ غفاریؓ زہد میں عیسیٰ اور شوق میں موسیٰ صفت (کشف المحجوب ص 147) سبحان اللہ دو نبیوں کی صفات والے ہمارے نبی اکرمﷺ کے صحابیؓ کا مقام کیا ہو گا ؟ میں گنہگار تو اندازہ کر ہی نہیں سکتا لیکن ذرا تصور کیجئے کہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام کتنے عظیم تھے، کتنے بلند درجہ تھے۔ ادب سے ان کا ذکر اور ان سے محبت و عقیدت بخشش ہے، جسے اللہ پاک توفیق دے۔

روضہ الطالبین از مولانا محمد عاشق الٰہی ایک تحقیقی معتبر کتاب ہے جس میں حضرت ابوذرؓ کے مختصر ترین حالات درج ہیں۔ نام جندب، ابوذر کنیت، مسیح الاسلام لقب، شروع اسلام میں مکہ میں مسلمان ہوئے، قد دراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، آخری عمر میں بال بالکل سفید ہو گئے تھے (ابن سعد169/4) غزوہ خندق کے بعد سے سارا وقت آپؐ کی خدمت میں رہے، اس سے پہلے اپنے قبیلہ غفار میں تھے(مسند احمد 174/5) حضرت ابوذر ؓ فطرتاً فقیر، زہد پیشہ تارک الدنیا تھے۔ حضرت عثمانؓ کے کہنے پر یا انہوں نے خود مقام’’ربذہ‘‘ میں قیام کی خواہش کی اور وہاں ہی رہے اور وہاں ہی انتقال ہوا۔ وفات کے بعد ایک یمنی قافلہ جو کوفہ سے آرہا تھا ان میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے اس جگہ پر پہنچے تو انہوں نے ہی ان کو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھائی اور اسی جگہ پر دفن کر دیا گیا (مستدرک حاکم346/3)۔

حضرت ابوذر غفاریؓ نبی کریمؐ کی حیات طیبہ تک مدینہ منورہ میں ہی رہے۔ بعد ازاں کچھ عرصہ شام میں گزارہ اور پھر مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔ خلفائے راشدین کا دور مشاورت کا زمانہ تھا جہاں اختلاف رائے کو احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ جن حضرات کو حضرت ابوذر غفاریؓ کے حضرت عثمان ؓ سے اختلافات کا شبہ ہے وہ محترم مناظر احسن گیلانی کی تحقیقی کتاب’’حضرت ابوذر غفاریؓ‘‘ پڑھیں۔ گیلانی صاحب کا تعلق جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات سے تھا۔ صفحہ نمبر 203-4 پر ان حضرات کا ذکر کرنے کے بعد جنہوں نے حضرت ابوذرؓ کو خلیفہ عثمانؓ کے خلاف اکسانے کی کوشش کی مصنف نے حضرت ابوذرؓ کا بیان نقل کیا ہے جس کا ہر لفظ حضرت عثمانؓ کی اطاعت و محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوئی لغزش ہوئی ہو تو اللہ پاک معاف فرمائے کہ رضائے الٰہی کے علاوہ اور کوئی مقصد یا منزل نہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود
 

Post a Comment

0 Comments