نبی اکرم ﷺنے حج کو افضل ترین اعمال میں سے ایک شمار فرمایا ہے چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا ’’سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟‘‘آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ اوراس کے رسول(ﷺ ) پر ایمان لانا۔‘‘ پوچھا گیا کہ’’ اس کے بعد ؟ ‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد ؟ توآپ ﷺنے فرمایا: ’’حج مقبول۔ ‘‘ (بخاری، مسلم)۔
حج وعمرہ سے حاصل ہونے والی سعادتوں، کامرانیوں اورفضائل و برکات کا یہ عالم ہے کہ تمام گناہوں کے کفارے کے ساتھ ساتھ جنت کی خوش خبریاں بھی کانوں میں رس گھولتی ، دلوں میں ایمان جگاتی اور روح کو بالیدگی وتازگی بخشتی ہیں چنانچہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں نبی آخر الزماں ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے تمام گناہوں کاکفارہ ہے اور حج مبرور کا ثواب تو جنت ہی ہے۔ ‘‘(بخاری ومسلم ) ۔
علمائے کرام نے ’’حج مبرور‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے متعدد آراء کا اظہار کیا ہے چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی ’’القریٰ قاصد ام القریٰ‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں : بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عنداللہ مقبول ہو جائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے وہ حج مراد ہے جس میں ریا و شہرت، فحاشی اورلڑائی جھگڑا نہ کیا گیا ہو ۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ اس سے آدمی پہلے کی بہ نسبت بہتر ہو کر لوٹے اور گناہ کی کوشش نہ کرے۔
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا حج جس کے بعد انسان دنیا سے بے رغبت اورآخرت کا طلبگار بن جائے۔ حقیقت تویہ ہے کہ حج کے مفہوم میں یہ سبھی امور شامل ہیں.
یہاں چند ایسے اہم امور کی طرف نشان دہی کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جن کو حجاج بیت اللہ کو نہ صرف حج سے قبل بلکہ حج کے بعد بھی مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ حج کے مقبول ومبرور ہونے میں ان امور کا گہرا دخل ہے جودرج ذیل ہیں :
شُکر اس عظیم عبادت ( حج و عمرہ) کی توفیقِ ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے ۔ شکر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ دیتا ہے چنانچہ سورہ ابراہیم کی آیت 7 میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘ آئندہ سال دوبارہ حج کرنے کی نیت اور عزم کریں، اگر حج نہ بھی کر سکیں تو کم از کم نیت کے ثواب سے محروم نہ ہوں ۔
تقویٰ ہر حاجی کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے، تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرے اورمقدور بھر کوشش کرے کہ جس طرح پورے سفر حج اور ادائے مناسک کے دوران اور حج کے بعد بھی کسی ایسے کام کا ارتکاب نہ کرنے پائے جسے عام حالات میں بالعموم بحالتِ احرام بالخصوص اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے ممنوع قرار دیا ہے مثلا ًبیہودہ اورشہوانی افعال، لڑائی جھگڑا اور دیگر فسق وفجور کیونکہ سورہ بقرہ ، آیت 197 میں ارشاد الٰہی ہے:
’’حج کے مہینے مقررہ معلوم ہیں پس جو شخص ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ لے تو شہوت کی باتیں، گناہ اور جھگڑا نہ کرے اور جو نیک کام تم کرو گے اللہ کو معلوم ہو جائیگا۔‘‘
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم میں بھی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے حج کیا اور اس دوران اس سے کوئی شہوانی امر اور گناہ کا کام سرزد نہ ہو تو وہ شخص گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹا کہ گویا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔ ‘‘ اس ارشاد نبوی ﷺ سے بھی معلوم ہوا کہ دوران حج ان افعال کا ارتکاب کرنا نہ صرف منع ہے بلکہ کفارۂ ذنوب و سیئات کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بھی ہے، حج کے مقبول و مبرور ہونے میں ایک مانع کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر حج کر لینے کے بعد حاجی ان امور کا ارتکاب کرنے لگے تو اسکا معنیٰ یہ ہو گا کہ اسکا حج مقبول و مبرور نہیں ہوا ۔
توبہ ہرحاجی کو چاہیے کہ جس طرح سفر حج پر روانگی سے قبل اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے سابقہ تمام گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور خلوص نیت کے ساتھ توبہ کر لے کیونکہ ارشاد الہٰی ہے: ’’اے ایمان والو! تم سب اللہ کی طرف تائب ہو جائو تاکہ تم فلاح پائو۔ ‘‘ اسی طرح ادائے حج و عمرہ کے بعد بھی اپنی توبہ پر قائم رہے کیونکہ حج کے قبول ہونے کی علامات میں سے ہے کہ واپسی کے بعد نیک کاموں کی پابندی اختیار کرے اور محرمات سے پرہیز کرے۔ یاد رہے کہ پرخلوص توبہ وہی ہوتی ہے جس میں گناہوں سے کلی و فوری اجتناب اختیار کیا جائے، آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہدِ مصمم اور عزم جازم وپختہ ارادہ کیا جائے اور سابقہ گناہوں پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا جائے ۔
ایک صحیح حدیث میں ہے: ’’ندامت توبہ ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ)۔ اگر توبہ کر لینے کے بعد اپنے آپ کو ان امور پر سختی سے پابند پائے تو سمجھ لے کہ اسکی توبہ اور حج و عمرہ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ غفاری نے قبول کر لیا ہے اور اسکے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ ‘‘
حقوق وامانات کی ادائیگی جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہر عازم حج اللہ کے گھر کی طرف روانگی سے پہلے دوسرے لوگوں کے حقوق اورامانتیں ادا کر دے ۔ کسی پر کوئی ظلم و زیادتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے ۔ کسی سے کوئی قرضہ لیا ہوا ہو اور تاحال واجب الادا ہو تو وہ دے کر جائے یا کم از کم لکھ کر یا ویسے ہی اپنے گھر والوں کواچھی طرح سمجھا دے کہ فلاں شخص کی فلاں چیز میرے پاس امانت ہے یا ا س کا میں نے اتنا قرض لیا ہے تاکہ بوقت ضرورت ومہلت وہ ادا کر سکیں۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء آیت 58 میں ارشاد الٰہی ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو واپس لوٹا دو۔‘‘ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حج و عمرہ کی ادائیگی سے فراغت کے بعد اپنی آئندہ زندگی میں یہ عہد کئے رہے کہ وہ کسی کمزور و زیر دست پر کبھی ظلم و زیادتی نہیں کریگا کیونکہ قرآن و سنت کی بکثرت نصوص کی بنا پر ظلم و زیادتی اور جبر و استبداد ہمیشہ ہی منع ہے۔ نہ کسی مزدور و ملازم کی حق تلفی کریگا کیونکہ یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے اور اگر اسکے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی تو اسکی حفاظت کریگا ، اسے ہضم نہیں کر جائے کیونکہ امانت میں خیانت کرنا کسی مسلمان و مومن کا شیوہ ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو ایک صحیح حدیث کی رو سے منافق کی نشانی ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
’’منافق کی 3 علامتیں ہیں : جب بولے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، جب اسکے پاس امانت رکھی جائے تو امانت میں خیانت کرے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ : جب جھگڑے تو گالی گلوچ بکے۔
خلوص وللہیت : جس طرح سفرحج پر روانگی کے وقت حاجی کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے اندر خلوص و للہیت پیدا کرے ویسے ہی اسے حج کے بعد بھی اپنا شعار بنائے رکھنا چاہئے کیونکہ تمام اعمال میں ہی اخلاص قبولیت عمل کی بنیادی شرط ہے خصوصاً حج و عمرہ کے اس جلیل القدر عمل کو ریا کاری، شہرت اورفخر و مباہات کا ذریعہ ہرگز نہیں بنا نا چاہئے جیسا کہ بعض لوگ یہ غلط روش اختیار کرتے ہیں کہ گھروں کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے، دروازوں پر محرابیں بنائی جاتی ہیں، انہیں رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور دروازے پر ’’حج مبارک ‘‘ اور تاریخ وغیرہ لکھی جاتی ہے ۔ یہ سب نمود ونمائش، ریا، دکھاوا اورفخر و مباہات نہیں تو اور کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ایسے افعال سے روکا اور اخلاص کی تعلیم دی ہے ۔ ارشا د الٰہی ہے:
’’لوگوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں اِطاعت کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے ۔‘‘(البینہ5)۔
خلوص فی العمل کی برکات نہ صرف آخرت میں بلکہ اسکے ثمرات تو انسان دنیا میں ہی دیکھ لیتا ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان 3 آدمیوں کا واقعہ مذکور ہے جو ایک پہاڑی غار میں بند ہو گئے اور انہوں نے خالص اللہ کیلئے سر انجام دیئے گئے اپنے عمل کو یاد کر کے اللہ سے دعا مانگی تھی تو غار کے منہ سے چٹان سرک گئی اور انہیں اس جگہ سے نجات مل گئی تھی جبکہ ریا کاری حج میں ہو یا کسی بھی عمل میں اسے تو نبیﷺ نے شرک خفی اور دجال کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے (ابن ماجہ)۔
ایک حدیث میں اسے شرک اصغر قرار دیا گیا ہے( ابن ماجہ)۔ صحیح مسلم ، ترمذی اور نسائی میں نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت کے دن سب سے پہلے میدانِ حشر میں شہید ، عالم و قاری اور سخی کو لایا جائیگا اور انکی ریا کاری کی وجہ سے انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائیگا ۔‘‘
0 Comments