ہم اس دور میں جی رہے ہیں جو گلوبل نیٹ ورک کا دور کہلاتا ہے، جہاں دولت کی ریل پیل ہے، جہاں روز نت نئے طرزکی ایجادات شاملِ حیات ہو رہی ہیں۔ ہر شخص ’’برانڈڈ برانڈڈ‘‘ کا راگ الاپنے میں لگا ہے۔ یوں کہیں نمائش ہمارے دور کی پہچان بن گئی ہے۔ کسی کے لیے ایک پنکھے کا بھی انتظام کر دیا تو اسے فوراً سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کر دیتے ہیں، کسی فقیر کیلئے اگر سو کا نوٹ بھولے سے بھی جیب سے نکل گیا تو سوچتے ہیں کم ازکم ایک سیلفی تو ہو جائے! کسی ضرورت مند کی مدد کر دی تو خوبصورت تمہید سے فیس بک پہ اپلوڈ کر دیا، کسی سفیر کو کبھی کسی ہوٹل میں عشائیہ کروا دیا تو سٹیٹس اپڈیٹ کر دیا ’’فلاں ہسپتال کیلئے چندے پر آئے ہوئے صاحب کے ساتھ۔‘‘ دن کیسا گزرا اس کی کچھ خبر نہیں ہاں چار لوگوں اور رشتے داروں کو اگر کھانے پر بلایا تو تصویر لینا نہیں بھولتے۔
راستے میں راہ گیروں کے لیے لائٹ کا بندوبست کر دیا تو فوٹو ایڈٹ کر کے شیئرکر دی۔ ہم نے کسی غریب طالبِ علم کے لیے اگر کتابوں کا انتظام کر دیا تو اسے بھی نہیں بخشا اور انسٹاگرام کی سولی پر چڑھا دیا۔ ذرا سوچئے! جب اس طالبِ علم کے ہاتھ میں کتاب کاپیاں تھما کر تصویر لی گئی تو کیا طالبِ علم نے کچھ نہیں سمجھا! یہ شعورکا دور ہے، ہمارے گھرکے بچے جب سمجھتے ہیں توکسی غریب کا بچہ کیوں نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے دل پہ کیا گزری ہو گی، جب بھی پڑھنے کے لیے کتاب اور لکھنے کے لیے کاپی کھولے گا تو ایسے لوگوں کے بارے میں اس کے دل میں کون سا جذبہ جاگے گا…؟
اچھا تھا کہ اس کی مدد ہی نہ کرتے اور اس کے ضمیرکو ٹھیس نہ پہنچتی۔ گھر کا سامان تھما کر تصویر کھینچتے وقت کوئی بیوہ اپنے پھٹے دوپٹّے سے چہرہ کیوں ڈھانپنا چاہتی ہے! کیا غریب اور بیوہ ہونا جرم ہے ؟ اس بیوہ کا بھی مقام وہی ہے جو آپ کا ہے، اس کی عزت بھی اتنی اہم اور قیمتی ہے جتنی ہماری اپنی عورتوں کی۔ سب برابر ہیں، اس کا ہمیں ہمیشہ احساس رہنا چاہیے۔ دولت نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ہم غریبوں کی فہرست بنا کر سرِ عام پکارتے پھرتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں افراد میں اتنا سامان تقسیم کیا ہے۔ یہ نمائش نیکیوں کوضائع کر دیتی ہے، کسی کی آبرو کو وسیلہ شہرت بنانے کے شوق میں یہ اعمال کل وبالِ جان بن سکتے ہیں۔ نیکی یوں کرو کہ دوسرے کوخبر نہ ہو۔
لیکن کس کو کتنی تکلیف پہنچی اس سے کیا لینا دینا، ہمیں لائکس چاہئیں، کمنٹس کی بھرمار چاہیے۔ دنیا کی واہ واہی مطلوب ہے، بھلے کسی کی عزت کا ہی مذاق کیوں نہ بن جائے۔ ہم نے نیکی کا محاورہ بدل دیا ہے،’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ یہ گزرے دنوں کی بات ہے۔ ہم اس پاکیزہ ماحول سے بہت دور ہو چکے ہیں جہاں ہر شخص مساوی طور پر احترام کی نظرسے دیکھا جاتا تھا۔ ہم نیکیاں کمانا چاہتے ہیں مگر نمائش کے ساتھ۔ سچ تو یہی ہے کہ ہم زبانِ حال سیکھتے ہیں: ’’ نیکی کرسوشل میڈیا میں ڈال‘‘۔
0 Comments