آج صبح 8 بجے آفس جاتے ہوئے کھارادر امام بارگاہ سے ٹاور کی طرف نکلتے ہوئے گلی میں ایک چھوٹا سا ہوٹل نظر آیا تو ناشتہ کرنے رک گیا۔ انڈہ پراٹھے کا آرڈر دیا ہی تھا کہ میلے کچیلے کپڑوں میں ایک بزرگ باباجی آکر میرے ساتھ ہی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ میرا ناشتہ آیا تو میں نے ان سے کہا بابا جی بسم اللہ کیجئے۔ کہنے لگے بیٹا میرا ناشتہ آرہا ہے تم کرو۔ تھوڑی دیر میں لڑکا ان کے لئے چائے اور پراٹھہ لیکر آگیا۔ مجھے تھوڑا اچھا فیل نہیں ہوا کیونکہ ان کے ناشتے میں ایک چیز کم تھی۔
میں نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا باباجی انڈہ یا ملائی منگوا لوں؟ انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے کہا پیسوں کی فکر نہ کریں میں دے دوں گا۔ کہنے لگے بیٹا پیسوں کی بات نہیں ہے۔ میں کھاتا ہی نہیں ہوں "ورنہ میرا ناشتہ مفت ہے یہ ہوٹل والا مجھ سے پیسے نہیں لیتا"
مجھے جھٹکا لگا٬ چھوٹا سا ہوٹل٬ کوئی بڑا ریسٹورنٹ نہیں کہ عطیات کا بکس رکھا ہو اور امیر لوگ کھانا کھانے کے بعد دوچار پیسے اس میں ڈال کر کہیں کسی غریب کو کھلا دو۔ میں نے باباجی کے قریب ہوکر ان کو کریدنا شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے۔ بڑا بیٹا 12 سال کا ہے۔ کراچی میں چوکیداری کر کے دو بیٹیوں کی گاؤں میں شادیاں کروائیں۔ لیکن گزشتہ 18 ماہ سے بے روزگار ہوں۔ کوئی چوکیداری بھی نہیں مل رہی۔ ہوٹل والا 18 مہینوں سے مجھ سے ناشتے کے پیسے نہیں لیتا۔
میں ناشتہ ختم کر کے ہوٹل والے کے پاس چلا گیا۔ اس سے پوچھا ان بابے کو جانتے ہو؟ کہنے لگا اتنا جانتا ہوں کہ غریب آدمی ہے۔ ہر صبح یہاں آتا ہے اور ناشتہ کر کے چلا جاتا ہے۔ باقی مجھے کچھ نہیں پتہ۔ میں نے پوچھا آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ اس نے کہا بلوچستان کے علاقہ پشین سے۔ میں ہکا بکا رہ گیا انسانی ہمدردی اور احساس کس قدر قیمتی متاع ہیں۔ پاکستان کے دو کونوں میں رہنے والے ایک دوسرے کے لیے محض انسانی ہمدردی اور احساس کے تحت کتنا بڑا سہارا بنے ہوئے ہیں۔
نورالہدیٰ شاہین نوٹ: یہ تصاویر شیئر کرنے کی دونوں سے پیشگی اجازت لی گئی ہے.
0 Comments