ریاکاری یا نمودو نمائش بہت خطرناک روحانی مرض ہے۔ یہ کسی مسلمان کی بڑی سے بڑی نیکی کو اس طرح ضائع کر دیتا ہے جیسے وہ کی ہی نہ ہو۔ کبھی کبھار اس کا وبال بھی انسان کو جھیلنا پڑتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر کثیر تعداد اپنی اچھائیاں، اپنے کام، اپنے کمالات اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا کو بتانے کی کوشش کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، اسے پسند کریں اور اس کی نیک نامی ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر اگر لوگ ایک دوسرے کے کام کو لائک نہ کریں تو بعض لوگ اس پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔
وہ سوچنے لگتے ہیں کہ شائد وہ شخص مجھ سے حسد کرتا یا جلتا ہے، اس لئے میری پوسٹ کو لائک نہیں کرتا۔ یہ معلوم کرنا تو بہت دشوار ہے کہ سبب حسد ہے یا نہیں، لیکن اس سوچ کے پروان چڑھنے سے یہ بات ضرور ظاہر ہو رہی ہے کہ یہ شخص اس بات سے بے خبر ہے کہ اُس کی یہ سوچ اس کے اپنے اندر چھپی ایک روحانی بیماری کا پتہ دے رہی ہے جسے نمود ونمائش کہتے ہیں۔ یہ روحانی بیماری کسی مسلمان کے ایمان کے لئے خطرناک ہے۔ قرون اولیٰ کے اولیاء اللہ اور صالحین اس سے بچا کرتے تھے۔
محمد یوسف اصلاحی اپنی کتاب روشن ستارے میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابن نُجیدؒ نیشا پور کے رہنے والے تھے اور آپؒ کا شمار بہت بڑے عالموں، زاہدوں، متقی اور پرہیزگار لوگوں میں ہو تا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو بہت طیب مال بھی دے رکھا تھا جو کہ آپؒ کو وراثت سے بھی ملا تھا۔ یہ مال آپؒ دین کا علم حاصل کرنے والوں، غرباء اور مساکین پر خرچ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ سرحد پر لڑنے والے مجاہدوں کے لئے رقم کی ضرورت پڑی تو آپؒ کے اُستا د محترم ابو عثمان ؒ نے مجاہدوں کی تکالیف اور بھوک پیاس کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور یہ بیان کرتے ہوئے آپؒ آبدیدہ ہو گئے۔
حضرت ابن نُجیدؒ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ فوراً گھر گئے اور دو ہزار اشرفیوں کی ایک تھیلی لا کر چپکے سے اپنے استاد محترم کو پیش کر دی۔ اتنی بڑی رقم سے آپ کے اُستاد محترم اس قدر خوش ہوئے کہ مجمع کے سامنے حضرت ابن نُجیدؒ کی تعریف کر دی تاکہ دوسروں کو بھی راہ خدا میں خرچ کرنے کا شوق پیدا ہو، لیکن حضرت ابن نُجیدؒ نے جب یہ دیکھا کہ یہ بات اُن کے استاد محترم نے لوگوں کے سامنے بیان کر دی ہے تو آپؒ اتنے پریشان ہوئے کہ فوراً سب کے سامنے کھڑے ہوئے اور مؤدبانہ عرض کرنے لگے کہ حضرت غلطی سے یہ رقم میں اپنی والدہ محترمہ کی اجازت کے بغیر لے آیا تھا اب معلوم نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم دینے پر راضی ہوں بھی یا نہیں اس لئے آپؒ یہ رقم مجھے واپس کر دیں۔
آپؒ کے استاد محترم نے وہ رقم فوراً واپس کر دی اور آپؒ یہ رقم واپس لے کر گھر آگئے۔ جب رات اندھیری ہو گئی اور سب لوگ سو گئے تو آپؒ دوبارہ یہ تھیلی لے کر اپنے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ حضرت بات یہ تھی کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری نیکی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو، میں صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے یہ رقم راہ خدا میں خرچ کر رہا ہوں۔ اس کا مقصد لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو نیک ظاہر کرنا نہیں ہے۔ اس لئے آپ یہ رقم قبول کرلیں اور کسی کو معلوم نہ ہو نے دیں۔ آپؒ کے استاد محترم حضرت ابو عثمانؒ یہ بات سن کر رونے لگے اور حضرت ابن نجیدؒ کو گلے لگایا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
0 Comments