دوسروں کے عیب چھپایئے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دوسروں کے عیب چھپایئے

جب اللہ نے ہمارے بے شمار عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم دوسروں کی جاسوسی کرتے پھریں۔ ان کے نقص اور عیب تلاش کریں اور پھر انہیں معاشرے میں بے عزت کریں۔ ذرا سوچئے! اگر عزت وذلت کا معاملہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھ میں دیا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنے مقابل کسی کو کبھی باعزت زندگی گزارنے ہی نہ دیتا۔ اور شاید ہر شخص ذلت کی زندگی گزار رہا ہوتا۔ اس ربِ کریم کی شان ہے کہ اس نے عزت اور ذلت اپنے ہاتھ میں ہی رکھی ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کے اخلاق وعادات سے متعلق اگر کوئی بری یا غلط بات ہمیں معلوم ہوتی ہے تو ہم اسے فوراً پورے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ 

اگر اس شخص نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کا پرچار کر کے ہم بھی تو گناہِ عظیم کر رہے ہیں۔ اور یہ تو ایسا عمل ہے کہ اس کا عذاب آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور جاسوسی کرنے سے ہماری شریعت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ خود کے اعمال کو صحیح کرنے کی بجائے ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں کے عیبوں کو جان کر انہیں سامنے لانا، انہیں اچھالنا تو ایک شعوری کوشش ہوتی ہے جس کا گناہ واجب ہے اور عبرتناک سزائیں ہیں۔ مگر آج کل تو سوشل میڈیا نے غیبت، چغلی اور لوگوں کی عیب جوئی کو الگ رنگ میں ہی پیش کر دیا ہے۔ 

اب تو غیر محسوس طریقے سے وہ تمام کام ہم کر جاتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ہمیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا بلکہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کی وجہ سے بے شمار غیر اہم افراد بھی اپنے آپ کوسماج کا اہم حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ رات دن سوشل میڈیا سے جڑے رہنا، ہر اہم غیر اہم بات کو پھیلانا، لوگوں کے بیچ اہم بننے کے چکر میں بلا سوچے سمجھے کچھ بھی ایک دوسرے کو میسج بھیج دینے کے عمل نے سماج میں ایک انتشار پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں تو حکم ہے کہ بلا تحقیق کسی بھی موضوع پر بات بھی نہ کریں اور کہاں یہ کہ دماغ کی بتی بجھا دی گئی ہے اور کی پیڈ پر انگلیاں چل رہی ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ نہیں رہ گئی کہ کون سی بات پیش کرنا چاہئے یا کون سی بات آگے بڑھانا چاہئے۔

سچ ہے کہ آجکل سوشل میڈیا پر خبریں پھیلانے یا شیئر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی بھی خبر سامنے آئے تو ہر کوئی اسے اپنے اپنے طریقے سے پیش کرنے اور جلد سے جلد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دنوں سے ایک عجیب بات اور بھی نظر آئی، بچوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے درس دینا۔ اگر بچے غلطیاں کرتے ہیں تو ہمیں انہیں اکیلے میں سمجھانا چاہئے، ان کی غلطی کا احساس دلانا چاہئے نہ کہ ان کی تصویریں ان کی غلطیاں سرعام کر کے انہیں رسوا کرتے ہوئے باغی بنا دیا جائے۔ ہم کہتے ہیں، لکھتے ہیں، سنتے ہیں کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت دینی چاہیے۔ ضرور دینی چاہئے اور ذمہ دار والدین دیتے بھی ہیں، کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو غلط راہ پر نہیں دھکیلتے یا بری تربیت نہیں دیتے۔

لیکن جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ہر وقت ماں باپ ساتھ تو نہیں رہتے! باہر بچے دوستوں سے ملتے ہیں، ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ دوستی ہو جاتی ہے۔ یہاں بچوں کو بھی سمجھنا چاہئے حد سے زیادہ آگے نہ بڑھیں۔ بچے اپنے فرائض کو سمجھیں۔غلطیاں بچوں سے ہوتی ہیں الزام ماں باپ پر آتا ہے کہ ماں باپ نے صحیح تربیت نہیں کی۔ لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ آج ہم کسی کی عزت اچھالیںگے تو کل یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ جانے انجانے میں ہم خود اپنے بچوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ والدین بھی اپنی ذمے داری نبھائیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیںا اچھے برے کی پہچان کروائیں۔ ہمارا معاشرہ، والدین، بچے اگر اپنے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں تو تھوڑا بہت ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔

سیدہ تبسم منظور


 

Post a Comment

0 Comments