مختار عالم شقدر کعبۃ اللہ کے غلاف کسوہ کے سرکاری خطاط ہیں۔ وہ اپنے پیش رو عبدالرحیم بخاری کے 1996ء میں انتقال کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے تھے۔ مختار عالم نے 1978ء میں مسجد الحرام کے خطاطی اسکول میں داخلہ لیا تھا اور وہ دو سال تک اس ادارے میں زیر تربیت رہے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایک ایلیمنٹری اسکول میں بھی درجہ چہارم میں زیر ِتعلیم تھے۔ انھوں نے فنون کی تعلیم میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں میں بیس سال تک خوش نویسی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان میں جامعہ اُم القریٰ بھی شامل ہے۔ انھوں نے بعد میں خطاطی میں ماسٹرز کیا تھا اور اس وقت مسجد الحرام میں قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ میں عربی خطاطی کے ماہر خوش نویس کے طور پر معروف ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’’ایک مرتبہ میرے ایک استاد مکرم نے میرا نام کسوہ فیکٹری میں خطاط کے طور پر تجویز کیا تھا اور میں نے اس فیکٹری میں 2003ء میں کام شروع کیا تھا۔ میں نے کمپیوٹرز کے ذریعے خطاطی کی تجویز پیش کی تھی ۔ اس وقت غلافِ کعبہ پر نظر آنے والی تمام خطاطی مرحوم عبدالرحیم بخاری نے متعارف کرائی تھی ۔ البتہ میں نے اس میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کی ہیں اور اس پر شاہ عبداللہ مرحوم اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ غلاف کے بعض خالی حصوں پر خطاطی کا اضافہ کیا ہے‘‘۔
انھوں نے وضاحت کی ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں کسوہ پر ہر سال قرآنی آیات کی نئے سرے سے خطاطی کی جاتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ فیکٹری نے مستقبل میں استعمال کے لیے سانچے بنا رکھے ہیں۔ ان سانچوں کی تیاری کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ اول ، قرآنی آیات کا متن کاغذ کے کسی ٹکڑے پر ہاتھ سے لکھا جاتا ہے، پھر انھیں ایک گرافک آرٹسٹ کمپیوٹر نظا م میں شامل کرتا ہے۔ پھر کمپیوٹر سے اس متن کا ایک صاف کاغذ پر پرنٹ لیا جاتا ہے اور اس کو سانچے کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر سانچے کو کشیدہ کاری کے شعبے میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ہنر مند کشیدہ کار سنہرے اور نقرئی دھاگے کی مدد سے کسوہ کو سیتے اور قرآنی الفاظ کو نمایاں کرتے ہیں ۔ ان کے بہ قول کسوہ فیکٹری کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے یہ مدد ملی ہے کہ اس ذریعے سانچوں کے ڈیٹا کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اور اس طرح اس کو ضائع ہونے سے بچا لیا جاتا ہے۔
0 Comments