صِدّیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

صِدّیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

خلیفۂ اول، سیدنا صدیق اکبرؓ کی حیات مبارکہ اور سیرت و کردار فضائل و مناقب کا تاریخ ساز باب ہے۔ قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں آپ کے بے شمارفضائل بیان کیے گئے ہیں۔ مشہورصحابی حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’مجھ پر جس شخص نے اپنی دوستی اور مال سے سب سے زیادہ احسان کیے ہیں، وہ ابو بکرؓ ہیں، اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا‘‘۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے آپ کو امام ہونے کا حکم فرمایا اور باقی تمام مقتدی تھے۔

سیّدنا صدیق اکبرؓ نے دنیا میں اپنی محبوب ترین اور پسندیدہ ترین چیز جو بیان فرمائی، وہ یہ تھی : ’’النظرُ اِلیٰ وَجہِ رَسُول اللہﷺ ‘‘ یعنی دنیا میں سب سے زیادہ میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ میں سرکارِ دو عالم ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوتا رہوں۔ فخرِ موجودات، سرورِکائنات، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے : سوائے نبی کے کوئی شخص ایسا نہیں ہے،جس پر آفتاب طلوع اور غروب ہوا ہو اور وہ ابو بکر صدیقؓ سے افضل ہو ‘‘۔

جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکرؓ بغرض تجارت یمن کے سفر پر تھے، واپس لوٹے ہی تھے کہ اہل مکہ نےآپ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور کہا کہ محمد بن عبداللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں، اور ان پر حضرت جبرائیل ؑوحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ، رسول اللہﷺ کے جاں نثار، تجارتی سفروں کے رفیق اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی ایمانی بصیرت ، دور اندیشی، و معاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، درِ رسالت پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپ ﷺکی زبان سے سنا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔

بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد حضورﷺ آپ کے گھر تشریف لے گئے، اور اسلام کی دعوت پیش کی، جسےحضرت ابوبکر ؓنے بلا چوں و چرا قبول کر لیا، اسی لیے حضور اکرم ﷺ فرمایا کرتے : میں نے جس پر بھی اسلام پیش کیا، اس میں کچھ نہ کچھ تردد کا اظہار ضرور پایا، سوائے ابوبکر ؓکے ، انہوں نے بلا چوں وچرا اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے ابتدا سے انتہا تک ایسی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ کبھی تو صدیقیت کے خطاب سے نوازا گیا، تو کبھی عتیق من النار کا اعزاز بخشا گیا۔ امام ترمذی نے حضرت عائشہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ، حضورﷺ کے پاس آئے، تو حضور ﷺنے فرمایا: تم اللہ کی جانب سے جہنم کی آگ سے آزاد ہو، چناںچہ اسی دن سے آپ کا نام عتیق پڑ گیا۔ 

واقعۂ معراج کی اطلاع جب قریش مکہ کو ہوئی تو وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکرؓ نے صرف اتنا معلوم کیا کہ کیا واقعی آپ ﷺ نے یہی بات کہی ہے ، تو سب نے بیک زبان کہا کہ ہاں، تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اگر محمد ﷺ یہ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں، جب رسول اللہﷺ کو یہ معلوم ہوا تو زبانِ رسالت سے آپ کے لیے صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کا اصل مشن ہی تبلیغ اسلام کو بنا لیا، خواہ اس سلسلے میں کتنا ہی ستایا جاتا، لیکن آپ تھے کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے ہر قربانی پیش کر رہے تھے۔

آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا، اورایسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جو بعد میں چل کر ستون اسلام ثابت ہوئے، ان سب میں آپ کی بے لوث تبلیغ کا اثر تھا، ان سعید روحوں میں جنہوں نے آپ کی وجہ سے اسلام قبول کیا، ان میں ممتاز حضرات یہ ہیں: (۱) خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنیؓ (۲) حضرت عمر ؓکے بعد حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ (۳) حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ (۴) حضرت زبیر بن عوامؓ (۵) فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۶) فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ۔ (تاریخ طبری:۲/۴۷۶، البدایہ والنہایہ:۳/۳۰) یہ سارے حضرات عشرۂ مبشرہؓ میں سے ہیں۔ یہ حضرات ،حضرت ابوبکر ؓ کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اسلام لائے۔

روایتوں میں آتا ہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکرؓچالیس ہزار درہم کے مالک تھے، یہ تمام درہم آپ نے اسلام کی راہ میں خرچ کیے۔ ان غلاموں و باندیوں کو آزاد کرایا جو پہلے سے ہی غلامی کی وجہ سے نامساعد حالات سے دو چار تھے۔ ان میں مشہور ومعروف موٴذن رسول حضرت بلال ؓ، ان کی والدہ حمامہ، عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہہ، حضرت زنیرہ، حضرت ام عبس،حضرت نہدیہ، اور ان کی صاحبزادی، اور بنی موٴمل کی کنیز لبینہ، یا لبیبہ ہیں۔ (البدایہ والنہایہ:۳/۵۸ )
دس نبوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورجناب ابوطالب کے انتقال کی وجہ سے ”عام الحزن“ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں جانا جاتا ہے۔ پھر مزید طائف کے سفر میں ناروا سلوک کیا گیا۔ آخرکار حضور اکرمﷺ کو ہجرت کا حکم مل گیا، اس دوران غارِ ثور میں قیام فرمایا، حضرت ابوبکرؓ غار کے دہانے پر پہنچے، رسول اللہﷺ کو تھوڑی دیر کے لیے وہیں روک دیا، خود اندر تشریف لے گئے، غار کو خوب اچھی طرح صاف کیا، کچھ سوراخ تھے، جس سے زہریلے جانور وغیرہ کا خطرہ تھا، انہیں اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، پھر حضورﷺ اندر تشریف لے گئے۔آپﷺ زانوئے صدیقی پر سر رکھ کر سو گئے۔

اتنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنا انگوٹھا اس پر رکھ دیا، ایک روایت کے مطابق کسی زہریلے سانپ نے آپ کو ڈس لیا، تکلیف کی شدت بڑھتی جا رہی تھی، لیکن اس وقت سب سے عظیم ہستی آپ کے زانو پر سر رکھے ہوئی تھی،آپ نے تمام تر تکلیف کے باوجود حرکت بھی نہ کی، آخر درد کی شدت سے آنسو بہہ نکلے اورآپﷺ کے رخ انور پر اس کے بعض حصے گرے، جس سے آ پ ﷺکی آنکھ کھل گئی، حضرت ابوبکرؓ کو آبدیدہ دیکھ کر وجہ دریافت کی۔

حضرت ابوبکرؓ نے ساری تفصیل بتائی، تو حضورﷺنے اپنا لعاب دہن سانپ کے ڈسے ہوئے مقام پر لگا دیا، جس سے تکلیف جاتی رہی۔ ایک مرتبہ کفار غار ثور کے دہانے تک آگئے، آپ نے اس تشویش کا اظہار حضورﷺ سے کیا، آپﷺ نے فرمایا ، ابوبکر: ’’لاتحزن انّ اللہ معنا‘‘ غم کی حاجت نہیں ہے، اللہ کی معیت ہمارے لیے کافی ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ پر گویا سکینت نازل ہو گئی۔ قرآن پاک نے اس واقعے کو ”ثانی اثنین“ کے لفظ سے ذکر کیا ہے، اس طرح حضرت ابوبکر ؓکو دو میں کا دوسرا کہہ کر جاودانی عظمت و شرف سے سرفراز کیا گیا۔

اس آیت کو شب و روز کے مختلف لمحات میں کروڑوں مسلمان تلاوت کرتے ہیں، اور وہیں پر’’ انّ اللہ معنا‘‘ کا حوالہ بھی پڑھتے ہیں۔ غارثور کے اس واقعے، اور رفاقت و جذبہٴ جاں نثاری کو ”یارِغار“ کے لقب سے جانا جاتا ہے، جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انتہائی جاں نثار اور مشکل وقت میں کام آنے والا رفیق۔ آپ حضوراکرمﷺ کے ہم دم و جاں نثار رہے،اور حضورﷺ کی توجہ جن اہم مسائل پر ہوتی، ان میں آپ برابر شریک رہے، بلکہ آپ ہی معتمد خاص اور وزیر خاص تھے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ، میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہیں اور وہ جبرائیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہیں اور وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔

مختلف معرکوں میں آپ دشمن کے خلاف صف آرا رہے، اور جرأت وشجاعت کی تاریخ رقم کی ۔اللہ پاک نے غزوئہ بدر کے ذریعے اسلام کو وہ عظمت وشوکت دی کہ پھر کفر سر نہ اٹھا سکا۔ اس غزوے میں بے جگری سے صحابہؓ کی قلیل تعداد نے جنگ لڑی ، اسیران قریش کی تعداد ۷۰ تھی۔ آخرمیں حضرت ابوبکرؓ کے مشورے پر فیصلہ ہوا کہ جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں، وہ دس ناخواندہ مسلمانوں کو تعلیم دے کر رہا ہو سکتے ہیں، اور جو خود ناخواندہ ہیں ،وہ فدیہ دے کر رہائی حاصل کریں۔ (البدایہ والنہایہ:۳/۲۹۷) غزوئہ احد وحنین میں ظاہری طور پر مسلمانوں کو اپنی غلطی یا عجلت پسندی کی وجہ سے وقتی ہزیمت ہوئی، ان دونوں معرکوں میں ہم حضرت ابوبکرؓ کو اس طرح پاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدس سے چمٹے ہوئے ہیں کہ مبادا کفار کی یلغار سے رسول خدا ﷺکو زک نہ پہنچے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکرصدیق ؓ ایک حصے کے علم بردار تھے، عام معافی کا دن تھا، کفار مکہ حضورﷺ اور مسلمانوں کے بے پایاں حسن سلوک کو دیکھ کر اسلام سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

۹ھ میں بازنطینی بادشاہ ہرقل، ریاست مدینہ پر حملہ آور ہونے والا تھا۔ یہ مسلمانوں کے لیے شدید آزمائش اور مالی تنگی کا دور تھا۔ تاریخ اس حقیقت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے کہ آزمائش کے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے جاں نثار صحابی صدیق اکبرؓ اپنا مال و اسباب لیے آرہے ہیں، حضور ﷺ دریافت فرماتے ہیں کہ اہل وعیال کے لیے گھر میں کیا چھوڑا ہے؟ آپ انتہائی سادگی سے فرماتے ہیں کہ اللہ و رسولﷺ کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ ( ترمذی:۲/۲۰۸)

دس ہجری میں اعلان عام ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں، اس تاریخ ساز موقع پر ایک لاکھ سے زائدصحابہ ؓ کا مجمع مکہ میں جمع ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ آخری حج تھا، اس لیے اسےحجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ نے اس موقع پر کئی وقیع خطبے دیے، جن میں دین کے تمام اہم اصولوں کو واضح طور پر بیان کیا، اس دوران آیت ’’ الیوم اَکْمَلْتُ لکم دینکُم واتممتُ علیکُم نعمتی ورضیتُ لکُم الاسلام دیناً، نازل ہوئی ،حضورﷺ نے لوگوں کو اس آیت کی خوش خبری سنائی، سب خوش تھے، لیکن حضرت ابوبکرؓ رو رہے تھے، صحابہؓ کو تعجب تھا کہ یہ تو ایسا موقع نہیں، لیکن آپ صدیقیت کے مقام پر فائز تھے۔

سمجھ رہے تھے کہ دین کی تکمیل کے بعد اب رسول ﷺ کے اس دار فانی سے رخصت کا وقت آپہنچا ہے۔ اب اللہ آپﷺ کو اپنے پاس بلانے والا ہے۔ جب دین کی تکمیل ہو گئی، تو نبی اکرمﷺ کا فریضہ نبوت گویا پورا ہو چکا ہے، کچھ اشارہ غیبی سے بھی اس طرف متنبہ کر دیا گیا، اس لیے آپﷺ نے بھی ساری تیاریاں مکمل کر لیں، سفر حج سے واپسی پر طبیعت ناساز ہو گئی، ابتدائی دنوں میں آپﷺ خود تشریف لاتے اور نماز پڑھاتے، لیکن جب نقاہت زیادہ ہو گئی، تو حضرت ابوبکرؓ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، ہر چند کہ حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب تھے،آپ کے لیے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں امامت کے لیے کھڑا ہونا دشوار تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں،اس طرح آپ ﷺکی حیات طیبہ میں ہی رحلت سے قبل نمازوں کی امامت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمائی۔ حضوراکرمﷺ نے دوران مرض ایک روز افاقہ محسوس کیا تو مسجد تشریف لائے، اور منبر پر تشریف رکھ کر فرمانے لگے کہ اللہ پاک نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا کو اختیار کرے یا پھر آخرت کو ترجیح دے، چناںچہ اس بندئہ خدا نے آخرت کو ترجیح دی۔

یہ سن کر مجمع میں سے حضرت ابوبکر ؓکی آنکھوں سے زار وقطار آنسو بہنے لگے، حضورﷺ نے فرمایا: ابوبکر! صبر سے کام لو، پھر فرمایا : سب دریچے بند کر دئیے جائیں، صرف ابوبکرؓ کا دریچہ کھلا رہے، پھر حضرت ابوبکرؓ کے احسانات حضور ﷺنے گنوائے۔ حضرت ابوبکرؓ ایک روز صبح کی نماز کے بعد حضور ﷺسے اجازت لے کر مقام ”سُنح“ چلے گئے، اتنے میں حضور اکرم ﷺکا وصال ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر دوڑے ہوئے تشریف لائے، مسجد نبوی پہنچے تو دیکھا کہ صحابۂ کرامؓ غم سے نڈھال ہیں، حضرت عمرؓ تلوار لیے کھڑے ہیں،اور اعلان کر رہے ہیں کہ جو کوئی کہے گا کہ محمدﷺ کی وفات ہو گئی ہے، اس کی گردن تن سے جدا کردوں گا۔

حضرت ابوبکرؓ اولاً حجرئہ مبارکہ میں تشریف لے گئے، رخ انور سے چادر ہٹائی، پیشانی کو بوسہ دیا اور طِبْتَ حیًا ومیتًا کہتے ہوئے باہر تشریف لائے۔ حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کی: اے لوگو! تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا، وہ سن لے کہ محمدﷺ وفات پا چکے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا، تو اس کا معبود’’ حی ولایموت‘‘ ہے۔ اس طرح لوگوں کو یقین آگیا کہ حضور ﷺکا وصال ہو چکا ہے۔ یہ ہیں خلیفۂ رسول، یارِغار و مزار سیدنا صدیق اکبرؓ کی زندگی کے سنہری لمحات، جس نے اسلام کے بعد سے وصال نبوی تک جذبہ جاں نثاری و اولوالعزمی کا مظاہر ہ پیش کیا اور اپنی وفات کے بعد بھی رسول اللہﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔

مفتی محمد نعیم
(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)
 

Post a Comment

0 Comments