سعودی عرب میں سینئر علماء کمیٹی کے رکن اور شاہی دیوان کے مشیر شیخ عبداللہ المطلق نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے خواتین کو "برقع" کا پابند نہ ہونے سے متعلق اپنے فتوے کے حوالے سے وضاحت پیش کی ہے۔ یہ بیان سعودی عرب اور کئی عرب ممالک میں بڑا تنازع کھڑا ہو جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ بیان میں شیخ المطلق نے اس امر کی تردید کی ہے کہ ان کا فتوی پردہ اتار دینے کی دعوت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "نداء الاسلام ریڈیو پر یہ سوال کیا گیا تھا کہ آیا عبایا اور لباس کی کوئی خاص متعین صورت ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے مسئلہ واضح کیا تھا کیوں ریڈیو کی نشریات ساری دنیا میں نشر ہوتی ہیں لہذا میں نے بھی یہ جواب تمام مسلمان بہنوں کو سامنے رکھ کر دیا"۔
شیخ المطلق نے واضح کیا کہ مسلمان عورت کا شریعت کی مقرر کردہ شرائط کے ساتھ پردے کی پابندی کرنا یہ اللہ تعالی کی اطاعت، ایک عبادت اور عورت اور معاشرے کے لیے پاکدامنی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ لباس جس سے پردے کا مقصد پورا ہو اور وہ شریعت کی شرائط پوری کرے تو وہ قابل قبول حجاب کی صورت ہے خواہ سر کے اوپر سے برقعے کی شکل میں ہو یا اس کے سوا کسی اور شکل میں۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ تمام بدن کو ڈھانپنے والا ہو اور اس میں جسم کے خدوخال واضح نہ ہوں۔ اس میں مردوں اور فاجر خواتین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ شیخ کے مطابق اگر حجاب یا پردہ مذکورہ شرعی صفات کا حامل ہو تو پھر دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو ان کے مختلف ممالک اور مختلف مسالک میں اسلامی حجاب کے نام سے کسی مخصوص لباس کا پابند نہیں بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے کی اپنی خصوصیات اور اقدار ہوتی ہیں لہذا اصل مقصود پردے کی فرضیت کی حکمت کو پورا کرنا ہے۔
0 Comments