مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی جس کا نام مسجد الازہر ہے۔ جب فوج کے ایک کمانڈر نے خلیفہ المعز کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے 969ء بمطابق 358 ھ میں قاہرہ کی بنیاد رکھی جس میں الازہر نامی مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز سات رمضان المبارک 361ھ کو پڑھائی گئی۔ اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔
جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لیے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمہ الزہرہؓ سے عقیدت و محبت کی بنا پر رکھا گیا۔ یہی توجیح زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس وقت کے مسلمان حکمران حضرت فاطمہ الزہرہؓ کے خاندان سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی باقاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔
جامع الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچرل مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتاً تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینارز میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں مشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے بھی اپنا لیا۔ مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔
وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کے لیے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علما کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔ 8 ویں اور 9 ویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کے لیے بہت محنت کی۔ جامعہ، مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سر انجام دیتی رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خودمختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ علما کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے لیے بھرپور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علوم کا مرکز بن گئی۔
عثمانی حکمرانوں نے جامعہ معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے "امام" پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کے لیے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کرنے کے بعد دیوان کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔
اس کونسل میں نو علما شامل تھے جس کے چیئرمین شیخ عبداللہ تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر نو علما جامعہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں جامعہ کے علما کی کیا وقعت تھی۔ 1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلبا کو وظائف پر پڑھنے کے لیے یورپی ممالک میں بھیجا۔ یہ ادارہ پوری شان و شوکت کے ساتھ آپ بھی قائم دائم ہے۔
0 Comments