حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

حضرت خباب بن الارت کا شمار حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت ہی مقرب صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ اسلام قبول کرنے والے خوش بخت افراد میں ان کا چھٹا نمبر ہے، اس لیے ’’سادس الاسلام‘‘ کہلاتے ہیں، اس طرح السابقون الا ولون کی بشارت سے خورسند ہوئے۔ قبیلہ بنو تمیم سے تعلق تھا. اپنے صاحبزادہ عبداللہ کی مناسبت سے ام عبداللہ کنیت اختیار فرمائی۔ وجیہہ شکیل اورمضبوط تن و توش کے مالک تھے ۔ مرور زمانہ نے غلام بنا دیا، مکہ کی ایک قریشی خاتون اُم انمار نے انہیں خرید لیا، اُم انمار نے انھیں آہن گری کا فن سکھایا اور اس کے رموزو اسرار سے واقف ہونے کے بعد انھیں دکان پر بٹھا دیا تا کہ کسب کریں اور کما کر اسے رقم ادا کریں ۔

اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بعثت مبارکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس زمانے میں اہل مکہ کے نزدیک یہ ایک شدید ترین جرم تھا، جسے وہ کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے، اسلام اور وہ بھی ایک غلام کا قبول اسلام، اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ غلا م اس پر کسی عذر خواہی کا اظہار بھی نہیں کر رہا بلکہ ببانگ دہل اس کا اعلان و اعتراف کر رہا تھا۔ کفار مکہ اس جرأت اظہار پر برا فروختہ ہو گئے اور انھوں نے آپ کو ہر قسم کی ایذاء رسانیوں کا ہدف بنا لیا۔

مکہ کے اس ماحول میں ان کا نہ تو اپنا خاندان تھا اور نہ کوئی ایسا حامی ومد د گار جو انھیں اپنی امان میں لیتا، لہٰذا قریش نے اپنی ساری بھڑاس خباب اور ان جیسے دوسرے بے سہاراافراد پر نکالنی شروع کی، ان کی مالکہ نے بھی ان درندہ صف لوگوں کو ان پر ظلم وستم ڈھانے کی مکمل چھوٹ دے رکھی تھی، وہ زمین پر دہکتے ہوئے انگارے ڈال دیتے اور خبا ب کو ان پر لٹا دیتے،ایک بھا ری پتھر ان کے سینے پر رکھ کر اسے مسلا جاتا، یہ اذیت اس وقت تک جاری رہتی جب تک کہ وہ انگارے ان کے زخموں کی رطوبت سے سرد نہ ہو جاتے.

بسا اوقات لوہے کا گرم خود ان کے سر پر کَس دیا جاتا اور اس پر ضربیں لگائی جاتیں، لیکن اس اذیت کے باوجود ان کے پائے استقلال میں کسی قسم کی لغزش نہ آسکی، ایسے ہی حضور رحمت للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی تالیف قلب فرماتے انھیں حوصلہ دیتے اور بشارت سے بہرور کرتے، ان کی مالکہ سے یہ برداشت نہ ہوا تو اس نے ایک لوہے کی سلاخ کو گرم کیا اور آپ کے سر اقدس کو اس سے داغ دیا، ایسے میں آپ کی درخواست اللہ کریم کے حضور میں تھی یا التماس دعاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگا ہ ایزدی میں دعاء کی !یااللہ! خباب کی مدد فرما۔ (اسد الغابہ)
 

Post a Comment

0 Comments