اللہ تعالیٰ سچ بولنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں، اسلامی تعلیمات میں جھوٹ گناہ کبیرہ ہے، لیکن دلائل شریعت میں جھوٹ کی آمیزش کر دی جائے تو پھر یہ محض کبیرہ نہیں رہتا بلکہ اکبر الکبائر (بڑا گناہ) بن جاتا ہے۔ دین اسلام کی بنیاد محکم ، مضبوط ، معتبر ، معتمد اور مستند ہے اس میں کمزور، مشکوک باتیں، تک بندی اور اندازے نہیں چلتے۔ اسلام پر ایمان اور اس کے احکامات پر عمل کا مدار قرآن کریم کے بعد احادیث مبارکہ ہیں، قرآن کریم کے الفاظ ، معانی ، مفہوم ، تعین ، مراد اور حقیقت احادیث مبارکہ سے سمجھی جا سکتی ہے اس لیے یہاں سخت احتیاط کا حکم دیا ہے۔
علمائے امت نے احادیث کے الفاظ، معانی، مفہوم ، متون ، اسناد ، رواۃ (نقل کرنے والے افراد)، صحت و ثقاہت ، اس کی ضرورت، حجیت، حفاظت، جمع و تدوین کے ساتھ ساتھ اس کے اصول و قواعد ، اقسام و اسلوب اور روایت کرنے کے آداب و شرائط کو مکمل تفصیل ، خوب تحقیق اور عمدہ ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے ، اس کی حفاظت کے لیے اسماء الرجال اور جرح و تعدیل جیسے علوم کو ضروری قرار دیا تاکہ اسلام کی یہ بنیاد مضبوط ہی رہے۔ چونکہ یہ اسلام کی بنیاد ہے اس لیے اس کی اشاعت، حفاظت، تعلیم و تبلیغ اور تفہیم میں علماء کرام نے بہت محنت سے کام کیا ہے، محدثین اور کتب احادیث کے مختلف طبقات مقرر کیے گئے۔
یہ معاملہ اس قدر نازک اور حساس ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات یا کام کی نسبت جھوٹ کے طور پر کر دے، یعنی بات درست بھی ہو لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد نہ فرمائی ہو یا کام بلکہ درست اور جائز ہو لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ فرمایا ہو اور کوئی شخص اپنی طرف سے اس بات یا کام کی نسبت آپﷺکی طرف کر دے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے (میری طرف کسی کام یا کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے) تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے۔
ہاں ،سچی بات ضرور کہی جائے لیکن جو حدیث شریف نہ ہو اسے زبردستی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ یہ طرز عمل جہنم جانے کا سبب ہے۔ آج علمی زوال اور اخلاقی انحطاط اور عملی فقدان کا زمانہ ہے، عقائد میں کمزوریاں اور توہمات دَر آئے ہیں، اعمال میں بدعات و رواج شامل ہو گئے ہیں، اخلاق ، رسم محض اور اخلاص سے دل خالی ہو چکے ہیں۔ بد دینی کا مسافر لادینی کو اپنی منزل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں دینی علم و عمل سے عاری اور اخلاق و اخلاص سے خالی جاہل طبقے نے اسلام کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔ موسم کے مطابق دین کے نام پر میسجز بناتے ہیں ، نہ کسی معتبر عالم دین سے اس کی رہنمائی لیتے ہیں اور نہ ہی معتبر کتب کی طرف مراجعت کرتے ہیں ، بس ایک شوشہ چھوڑتے ہیں اور لاعلمی کی بنیاد پر ایک جھوٹی بات کو العیاذ باللہ حدیث بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور اس کے بعد میسج بنا کر پھیلا دیتے ہیں ، پھر عوام ا س کو دھڑا دھڑ دین سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں۔
مثال کے طور یہ میسج چلایا جاتا رہا ہے کہ :’’ ربیع الاول شروع ہونے والا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہو گئی۔ ‘‘ جس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی پیدائش ہوئی یقینا وہ مہینہ محترم ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس مہینے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے جھوٹی اور بے بنیاد بات کو حدیث شریف بنا کر پیش کیا جائے۔ پھر ستم یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمان اسے دین کا حکم سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں، میسج کے آخر یا شروع میں یہ بھی اضافہ کیا جاتا ہے کہ یہ میسج اور پوسٹ لائک اور شئیر ضرور کریں ، اتنے لوگوں کو فارورڈ کریں گے تو خوشی ملے گی ، اور اگر اس کو آگے نہ پھیلایا تو کوئی ناگہانی آفت اور صدمہ پیش آئے گا۔
یاد رکھیں ! شریعت اسلامیہ کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں۔ دین اسلام کو پھیلانے کا حکم محض دس بارہ افراد تک محدود نہیں ، بلکہ جہاں تک انسان کی دسترس ہے وہاں تک دین کی صحیح ، ثابت شدہ اور اہل اسلام میں قابل عمل بات پر خود بھی عمل کرے کسی معتبر کتب سے دین کا مسئلہ خود پڑھے دوسرے کو بھی پڑھائے ، خود کسی معتبر عالم دین سے مسئلہ سیکھے دوسرے کو بھی سکھائے ، اس میں قباحت نہیں لیکن نہ تو دین کی معتبر کتب کا کچھ پتہ ہو اور نہ ہی اسلام کی مقتدر شخصیات سے رہنمائی لے بلکہ سوشل میڈیا پر چلتے پھرتے جھوٹے اور غیر ثابت شدہ میسجز کو دین سمجھ کر آگے پھیلاتے رہنا انجام کے اعتبار سے خسارے والی بات ہے۔
جو باتیں احادیث کی کتب میں صحیح طور پر منقول ہیں ،ان کو نقل کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے ، لیکن اعتدال اور حق سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اسلامی مہینوں میں ربیع الاول ، رمضان المبارک ، محرم الحرام ، صفر المظفر، رجب المرجب اور شعبان المعظم میں بے بنیاد اور جھوٹے میسجز بہت پھیلائے جاتے ہیں ، اس سے بچنے کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ میسجز پر تحقیق کر لی جائے ۔ علماء کی مذہبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی اس بارے میں رہنمائی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے اور گمراہیوں سے بچنے کی توفیق دے۔
0 Comments