رشتہ داروں سے حسنِ سلوک

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک

ہمارا معاشرہ انتشار میں مبتلا ہے اور بحرانی کیفیت میں ہے، جس کی وجہ سے آئے دن طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مسائل ہر سطح اور ہر پیمانے پر ہیں۔ ایک مسئلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بلکہ بعض وقت تو کسی مسئلے کا حل ہی نئے مسائل کی وجہ بن جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ صورت اس وقت تک رہے گی جب تک معاشرے کے بنیادی اداروں کو مستحکم نہیں کرتے۔ بنیادی، سماجی ادارہ ہے محلہ۔ ذیل میں اسی ادارے کے بارے میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں چند اہم باتیں کی گئی ہیں۔ اﷲ کے آخری اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اچھی زندگی کس طرح گزاری جا سکتی ہے۔

دنیا میں انسان کے سکون اور خوشی کا انحصار اچھے تعلقات پر ہے۔ کوئی آدمی اپنے قریب کے لوگوں سے بگاڑ کر خوش نہیں رہ سکتا۔ رشتے دار آپس میں سب سے قریب ہوتے ہیں۔ پڑوسی بھی بہت قریب ہوتے ہیں۔ بعض دوست اور ساتھی بھی عزیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ پھر رشتے داروں میں بھی کئی درجے ہوتے ہیں، ماں، باپ، میاں، بیوی، بیٹا، بیٹی، بھائی، بہن اور دوسرے رشتے دار اپنی اپنی جگہ محبت اور تعلق رکھتے ہیں۔ ان سب کا حق ایک دوسرے پر ہوتا ہے اس حق کو ادا کرنے کے جذبے کو رشتوں کا احترام کہنا چاہیے۔ جو عزیز، رشتے دار جس سلوک کا مستحق ہے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔‘‘ ایک بار حضورؐ نے اپنے ساتھیوں (صحابہؓ) سے پوچھا ’’جانتے ہو تم میں مفلس کون ہے؟‘‘صحابہ نے جواب دیا ’’مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہوں نہ کوئی اور سامان۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت میں اپنی نماز روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ ﷲ کے سامنے حاضر ہو گا مگر اس کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال دبایا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو گا، ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان مظلوموں کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی۔ اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘

آپس میں لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنا، اخلاقی خوبی ہے اور لڑنا جھگڑنا برا بھلا کہنا اخلاقی عیب ہے لیکن جو لوگ دوسرے لوگوں کے آپس کے تعلقات خراب کراتے ہیں ان کے دلوں میں رنجش پیدا کرتے ہیں وہ تو اپنی عبادتوں کا ثواب بھی ضایع کر دیتے ہیں۔ حضورؐ کا فرمان ہے ’’میں تمھیں بتائوں کہ روزے، صدقے اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگڑے ہوئے تعلقات میں صلح کرانا اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا، وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔‘‘ سرکاری دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے ’’اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو، نہ اس کے ساتھ ایسا مذاق کرو جس سے اسے تکلیف ہو اور نہ ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو‘‘

حضورؐ کا یہ ارشاد بھی پڑھیے ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
جس گھر کے لوگ آپس میں میل محبت سے رہتے ہیں ایک دوسرے کے کام بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں اور تکلیف میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں تو اس خاندان کے لوگ کتنے آرام سے زندگی گزارتے ہیں، خاندان معاشرے کی پہلی اکائی ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے خاندانوں کا مجموعہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ ایک شہر یا ایک ملک کے لوگ مل کر ایک معاشرہ بانٹے ہیں، کسی شہر کے لوگوں کی عادتیں، اخلاق، طور طریقے، مزاج، رسمیں، رہنے سہنے اور کھانے پینے کے طریقے آپس میں ملنے جلنے کے انداز اس شہر کی زندگی کو آسان یا مشکل بناتے ہیں، اس شہر میں رہنے والا ہر شخص معاشرے پر اثر ڈالتا ہے اور اثر لیتا بھی ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو ہدایات دی ہیں اور خود اپنی زندگی میں اپنے عمل سے جو نمونہ یا معیار ہمیں عطا کیا ہے اس پر عمل کیا جائے تو خاندان اور معاشرے کے سب لوگوں کو سکون اور خوشی میسر آ سکتی ہے۔ حضورؐ خود بھی اپنے خاندان اور رشتوں کا بہت خیال رکھتے تھے آپؐ نے فرمایا ’’غریب، مسکین کو صدقہ دینے سے صرف صدقے کا ثواب ملتا ہے اور غریب رشتے دار کو دینے سے دہرا ثواب ملتا ہے۔‘‘ ایک صاحب آپؐ کی خدمت میں آئے اور سوال کیا کہ ’’یا رسول اﷲ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا۔’’ تیری ماں۔‘‘
’’پوچھا پھر کون؟‘‘
فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘
ان صاحب نے پھر پوچھا ’’پھر کون؟‘‘
فرمایا ’’تیری ماں‘‘
تین بار آپؐ نے ماں ہی کو حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق بتایا۔
چوتھی بار پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا ’’تیرا باپ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں ہم پر سب سے زیادہ احسان ماں کا ہی ہوتا ہے ہمیں پالنے اور ہماری حفاظت کرنے کے لیے جو محنت ماں کرتی ہے اور اپنے آرام کی قربانی ماں دیتی ہے، وہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی اپنی اولاد کے لیے جو قربانی دیتا ہے وہ ماں کے بعد کسی سے کم نہیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے آپؐ کو دودھ پلایا تھا وہ آپؐ کی رضاعی ماں تھیں۔ آپؐ نے ایک بار ان کے قبیلے کی جنگی قیدیوں کو ان کی سفارش پر رہا فرمایا تھا۔ مہمان کی خاطر مدارات بھی اچھی زندگی کا ضروری حصہ ہے۔

حضورؐ نے مہمان کے آرام اور عزت کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد ہے ’’جو شخص اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے‘‘ جو لوگ قریب رہتے ہیں چاہے وہ رشتے دار نہ ہوں لیکن رشتے داروں سے زیادہ ان سے واسطہ پڑتا ہے ان سے اچھے تعلقات انسان کی شرافت کا ثبوت ہیں۔ حضورؐ کا اعلان ہے ’’ مومن نہیں ہے، ﷲ کی قسم وہ مومن نہیں، ﷲ کی قسم وہ مومن نہیں ہے، جس کی بدی سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔‘‘

آپؐ نے یہ بھی فرمایا ’’جو شخص پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کے بازو میں اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ ’’بہترین حاکم وہ ہے جو اپنی رعایا اور اپنے ماتحتوں کو نہ ستائے، بلکہ ان کے آرام کا خیال رکھے۔‘‘ حضورؐ کا ارشاد ہے ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ماتحتوں پر بری طرح افسری کرے۔‘‘ اگر ہر شخص اپنی حیثیت کا خیال رکھے اور اس حیثیت سے اس کا جو فرض بنتا ہے وہ ادا کرتا رہے تو سب خوش رہیں گے اور کسی کو شکایت یا تکلیف نہیں ہو گی۔

سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف چند الفاظ میں ایک ایسا نکتہ بیان فرمایا، جس کو سمجھ لیا جائے تو ہر طرف سکون اور راحت کا دور دورہ ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر ایک اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ مرد اپنی بیوی کا رکھوالا ہے۔ اس سے اس کی بیوی کی پوچھ ہو گی اور بیوی اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے۔ اس سے اس کی پوچھ ہو گی۔‘‘ قرابت داروں یا رشتے داروں کا حق ادا کرنے سے معاشرے میں خوشی اور خوشحالی آتی ہے۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے رشتوں کا خیال رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے ’’اس ﷲ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتے و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘‘ (سورۂ نساء آیت 1)

رشتے داروں کے حق ادا کرنے سے عمر بڑھتی ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔
حضور ؐ نے فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت ہو اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘ (یعنی رشتے کا حق ادا کرے) رشتوں کا حق ادا کرنے سے زندگی میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور محبت کے چشمے سے افرا تفری ختم کر کے معاشرے کو پر سکون، مستحکم اور شاداب کرتے ہیں۔

مسعود احمد برکاتی

 

Post a Comment

0 Comments