اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 38 (ف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جتنی جلدی ممکن ہو (معیشت سے) ربوٰ (سود) کا خاتمہ کر دیا جائے۔ بدقسمتی سے ریاست کے تمام ستون دل و عمل سے نہیں چاہتے کہ ملکی معیشت سے سود کا خاتمہ ہو، کیونکہ اس سے مالدار اور طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ وطن عزیز میں بہت زور و شور سے 1984ء سے ’’بلاسودی بینکاری‘‘ شروع کی گئی تھی۔ 18 برس بعد 2002ء میں حکومت اور اسٹیٹ بینک نے اس کو غیر اسلامی قرار دے کر ملک میں ’’اسلامی بینکاری‘‘ کا دوبارہ اجرا کیا۔ یہ نظام بھی جلد ہی اندیشوں اور تنقید کی زد میں آ گیا۔ ہم برس ہا برس سے ان ہی کالموں میں کہتے رہے ہیں:
(1) سورہ البقرہ کی آیت 279 سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے ربوٰ کو حرام اس لئے قرار دیا ہے کہ یہ ظلم کا سبب بنتا ہے مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک مروجہ نظام کے تحت اگر چاہیں بھی تو اس ظلم کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی گزشتہ 15 برسوں میں کیا ہے۔
(2) اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مروجہ متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے مگر طویل عرصے سے اس نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
(3) اسلامی بینکوں نے فنانسنگ (قرضوں) کے لئے جو طریقے اپنائے ہیں وہ شرعی مقاصد پورے نہیں کرتے کیونکہ اسلامی بینک کاروبار میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہے جو کہ اسلامی بینکاری کی اساس ہے۔ ان بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا۔
(4) نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر مشارکہ کی جانب مرحلہ وار پیش قدمی کرنے کے بجائے فنانسنگ کے ایسے طریقے، یہ بینک اپنا رہے ہیں جو سودی نظام کے نقش پا پر ہیں۔
(5) متوازی نظام بینکاری اور حکومت و اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں کے نتیجے میں سودی نظام بینکاری کو پاکستان میں دوام مل گیا ہے اور اس صدی کے آخر تک بھی پاکستانی معیشت سے سود کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
(6) پاکستان میں متوازی نظام بینکاری غیر معینہ مدت کیلئے نافذ کرنے کا غیر شرعی اور غیر آئینی فیصلہ 4 ستمبر 2001ء کو ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں فوجی آمر کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ممبران سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بیچ کے ایک سابق عالم جج اور گورنر اسٹیٹ بینک سمیت متعدد اہم شخصیات شریک تھیں۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 14جون 2001ء کے فیصلے سے متصادم تھا مگر ان تمام علما اور گورنر اسٹیٹ بینک سمیت متعدد اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں نے آمر کے دبائو پر یہ فیصلہ کیا۔
(7) کچھ اسلامی بینکوں کے شریعہ بورڈز نے یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے کہ ان کا بینک اپنے کھاتے داروں کو جو منافع دے رہا ہے وہ صرف اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق ہے نہ کہ شریعت کے مطابق۔
(8) اسٹیٹ بینک نے بعد از خرابی بسیار 2012ء میں تسلیم کیا تھا کہ اسلامی بینکوں نے فنانسنگ کے جو طریقے اپنائے ہیں ان سے شرعی مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ اسلامی بینک شرعی مقاصد کے حصول سے مزید دور ہوئے ہیں۔
(9) اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ نے چند برس قبل بیع موجل پر مبنی ایک پروڈکٹ کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعد اسلامی بینکوں نے ’جاری مشارکہ‘‘ کے نام سے بڑے پیمانے پر فنانسنگ شروع کی ہوئی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق ان دونوں میں سود شامل ہے۔ یہی نہیں اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ نے 2 نومبر 2007ء کو تین ماہ کے لئے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی (علامتی) تجارت کے لئے ایک نئی پروڈکٹ ’’تورق‘‘ کی منظوری دی ہے جو شریعت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتی اور اس میں سود کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی بینک کئی سو ارب روپے کی اپنے کھاتے داروں کی رقوم سودی بینکوں کو فراہم کریں گے چنانچہ کھاتے داروں کو ملنے والے منافع میں سود شامل ہو گا۔
(10) گزشتہ 26 برسوں میں بھی شرعی عدالتوں نے حتمی طور پر یہ فیصلہ نہیں دیا کہ ان کے مطابق اسلام میں سود حرام ہے یا نہیں۔ وفاقی شریعت عدالت میں ربوٰ کا مقدمہ 15 برسوں سے التوا کا شکار ہے۔ وزارت خزانہ نے 2002ء میں سپریم کورٹ میں حیرت انگیز سرعت سے ایک حلف نامہ داخل کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 30 جون 2001ء کو ملک پر سودی بنیاد پر لئے گئے صرف داخلی قرضوں کا مجموعی حجم 1800 ارب روپے ہے اور اس بڑے حجم کے قرضوں کو اسلامی نظام کےتحت تبدیل کرنے میں زبردست رکاوٹیں پیش آئیں گی چنانچہ اس کو کم کرنا ہو گا۔ جن 15 برسوں میں شرعی عدالت نے اس مقدمہ کو زیرسماعت رکھا اسی مدت میں ان داخلی قرضوں کا حجم 1600/ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان میں اسلامی نظام بینکاری کے لئے ماحول اتنا زیادہ معاندانہ بنا دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقت مروجہ اسلامی بینکاری کے نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بھی جائے تو وہ آسانی سے کامیابی سے ہم کنار نہ ہو سکے۔
آئین پاکستان کی شق 203 (د) کے تحت وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ازخود نوٹس لے کر بھی کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ وطن عزیز میں 30 جون 2017ء کو سودی بینکوں کی شاخوں کی مجموعی تعداد 12413 تھی۔ ان میں سے 11199 شاخیں سود پر مبنی کاروبار کر رہی تھیں۔ ملکی قانون کے تحت سودی بینکوں کے ملکی کرنسی کے تمام کھاتے سوائے جاری کھاتوں کے نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ بینک طویل عرصے سے اسٹیٹ بینک کے غیر اسلامی احکامات کے تحت کھاتے داروں سے کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہ کر کے ان کا استحصال کر رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے بی پی آر ڈی سرکلر نمبر 7 مورخہ 7 ستمبر 2013ء میں بینکوں کو احکامات دیئے تھے کہ وہ بچت کھاتے داروں کو دی جانیوالی شرح منافع کو اسٹیٹ بینک کی شرح سود سے منسلک کریں اور کم از کم شرح منافع اس شرح سے 50 پوائنٹ کم رکھیں (نہ کہ بینک کے منافع سے منسلک کریں حالانکہ یہ کھاتے نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر ہیں) اس ضمن میں اسٹیٹ بینک نے 8 مزید غیر اسلامی اور غیر آئینی سرکلرز کا اجرا کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وفاقی شرعی عدالت ان کا ازخود نوٹس لے کر انہیں غیر قانونی قرار دے اور اس ضمن میں مناسب احکامات جاری کرے تاکہ کھاتے داروں کیساتھ ہونیوالے ظلم کا خاتمہ ہونیکی راہ ہموار ہو۔ یہ سودی بینک پہلے خود اچھے بینک بنیں گے تب ہی وہ اپنی اسلامی شاخوں کواسلامی بینکاری کے مطابق چلانے کی کوشش کر سکیں گے۔
قرآن نے ربٰو کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ، شرعی عدالتیں، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بینک، اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ اور دینی و مذہبی جماعتیں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں یقیناً ناکام رہی ہیں۔ اللہ تو قیامت کے روز ان سے ان معاملات پر سوال ضرور کرے گا مگر ملک کے کروڑوں عاشقان رسولؐ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبار زندگی میں رخنہ ڈالے بغیر پرزور مگر پر امن احتجاج کا راستہ اپنائیں تاکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں، ریاستی اداروں اور اسٹیٹ بینک اور اس کے شریعہ بورڈ کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ سود حرام قرار دینے، متوازی نظام بینکاری کے خاتمے اور اسلامی بینکاری کو شریعت کی روح کے مطابق ڈھالنے کے ضمن میں فوری طور پر اقدامات اٹھائیں۔
0 Comments