سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی منظوری کے بعد مکہ مکرمہ میں "امورِ حرمین" پریذیڈنسی نے زمزم کے کنوئیں کی بحالی سے متعلق منصوبے پر عمل درامد شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جاری تصاویر میں درجنوں کاریگر مشینوں کے ساتھ مطاف کے صحن کے مشرقی حصے میں کھدائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے طواف کرنے والوں کو حرم کی مختلف منزلوں پر تقسیم کرنے کے نتیجے میں مطاف میں طواف کا عمل بنا کسی رکاوٹ جاری رہتا ہے۔ حج اور عمرے کے امور سے متعلق تاریخی محقق احمد حلبی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ مذکورہ منصوبہ سات ماہ کی مدت میں مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کنوئیں کی بحالی کے نتیجے میں اس "مبارک پانی" کی اعلی ترین کوالٹی حاصل ہو گی۔ ساتھ ہی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کے لیے بھی حجاج اور معتمرین کے واسطے وافر مقدار دستیاب ہو گی۔
منصوبے میں اس بات کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ ذخیرے کے عمل اور تقسیم کو ایسی مثالی صورت دی جائے جس سے اس کی شفافیت اور معیار بھی یقینی طور پر برقرار رہے۔ حلبی کے مطابق سال 2003 تک معتمرین 2.7 میٹر گہرے تہ خانے میں اُتر کر زمزم کا پانی پیتے تھے۔ اسی سال اس تہہ خانے کو مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا تا کہ مطاف کے صحن کو طواف کرنے والوں کے لیے مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے۔ اس کے بعد سے معتمرین کے لیے کنوئیں کے نزدیک جانے کا راستہ بھی ختم ہو گیا۔ حلبی کے مطابق منصوبے میں زمزم کے کنوئیں کے گرد پورے علاقے کی کھدائی، اس کی صفائی اور جراثیم سے پاک کیا جانا شامل ہے۔ منصوبے کے تحت پانی کے گزرنے کے واسطے 8 میٹر چوڑی اور 120 میٹر طویل پانچ گزرگاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ یہ گزرگاہیں پانی کے گزر اور اس کی کوالٹی کو برقرار رکھیں گی تا کہ دنیا بھر کے ایک عرب سے زیادہ مسلمانوں کی روحانی تشنگی کو بجھایا جا سکے۔
احمد حلبی نے اپنی گفتگو کے اختتام پر پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سال 1945 تک معتمرین حضرات ڈول کے ذریعے زمزم کے کنوئیں سے پانی نکالا کرتے تھے۔ بعد ازاں مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود نے کنوئیں پر پمپ نصب کرنے کا حکم دیا تا کہ پانی کھینچ کر ٹینکوں میں جمع کیا جائے اور پھر ان کو نلوں کے ذریعے زائرین تک پہنچایا جائے۔ سال 1962 میں شاہ سعود نے مطاف کے صحن میں ایک تہہ خانہ قائم کرنے کا حکم جاری کیا اور کنوئیں کا دہانہ اس تہہ خانے کی سطح کے برابر رکھا گیا۔ اس طرح ڈول کا دور اختتام کو پہنچا اور اس کی جگہ نلکوں نے لے لی۔ سال 1979 میں شاہ خالد کے حکم پر کنوئیں کی صفائی عمل میں آئی جس کے نتیجے میں کنوئیں سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہو گیا۔ سال 1980 میں مسجد حرام میں آب زمزم کی انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا جو آج تک کنوئیں سے متعلق تمام امور کی نگرانی کر رہی ہے۔ ان امور میں حرم مکی کے اندر ہزاروں کُولروں اور نلکوں کے ذریعے زمزم کے ٹھنڈے پانی کی فراہمی شامل ہے۔
0 Comments