عاجزی کا راستہ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عاجزی کا راستہ

حضرت جنید بغدادیؒ ایک دن یمن کے شہر صنعا کے جنگلوں میں سے گزر رہے
تھے۔ وہاں انہوں نے ایک بوڑھے جنگلی کتے کو دیکھا جس کے دانت گر چکے تھے۔ بے چارہ شکار کرنے سے معذور تھا۔ دوسروں کے کیے ہوئے بچے کھچے شکار پر گزارہ کرتا اور اکثر بھوکا رہتا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے دیکھا تو آپ کو اس پر بڑا ترس آیا اور جو کھانا ساتھ تھا، آدھا اس کو کھلا دیا۔ اس کی نیکی کے ساتھ ساتھ آپ روتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے: “اس وقت تو میں بظاہر اس کتے سے بہتر ہوں لیکن کسے معلوم ہے کہ کل میرا درجہ کیا ہوگا۔  

اگر میں با ایمان رہا تو خدا کی عنایت اور رحم کا مستحق قرار پاؤں گا۔ بصورت دیگر یہ کتا مجھ سے بہتر حالت میں ہو گا کیونکہ اس کو دوزخ میں ہرگز نہیں ڈالا جائے گا۔” اللہ کے نیک بندوں نے عاجزی اختیار کرکے ہی اعلیٰ رتبہ پایا ہے۔ اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات اسی صورت کہلانے کا حق دار ہے جب وہ عاجزی اختیار کرے اور یہی مقام انسانیت ہے۔ عاقبت اسی کی بخیر ہو گی جو آخری سانس تک عاجزی کے ساتھ راہِ راست پر چلتا رہے۔

احسان کی قوت
جناب شیخ سعدی علیہ رحمت اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کے پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی ۔ شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے، اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟ جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو وہ ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ لیکن اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا۔ پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔ ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے ،اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے ،وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔
 

Post a Comment

0 Comments