بیان کیا جاتا ہے، ایک فقیہہ نے اپنے باپ سے کہا یہ متکلم باتیں تو لچھے دار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے قول کے مطابق نہیں ہوتا۔ دوسروں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا سے دل نہیں لگانا چاہیے لیکن خود مال و دولت جمع کرنے کی فکر سے فارغ نہیں ہوتے۔ باپ نے کہا اے بیٹے ! اس خیال کو ذہن سے نکال دے کہ جب تک کوئی عالم با عمل نہیں ملے گا تو نصیحت پر کان نہ دھرے گا بھلائی اور نیکی کی بات جہاں سے بھی سنے اسے قبول کر۔ اس نابینا شخص جیسا بن جانا مناسب نہیں جو کیچڑ میں پھنس گیا تھا اور کہہ رہا تھا کہا اے برادران اسلام ! جلد ی سے میرے لیے ایک چراغ روشن کر دو۔ اس کی یہ بات سنی تو ایک خاتون نے کہا کہ جب تجھے چراغ ہی دکھائی نہیں دیتا تو اس کی روشنی سے کسی طرح فائدہ حاصل کرے گا ؟ اے بیٹے ! واعظ کی محفل بازار کی دکان کی طرح ہے کہ جب تک نقد قیمت ادا نہ کی جائے جنس ہاتھ نہیں آتی۔
اسی طرح عالم کے ساتھ عقیدت شرط اوّل ہے۔ دل میں عقیدت نہ ہو گی تو اس کی بات دل پر اثر نہ کرے گی۔ نصیحت تو دیوار پر بھی لکھی ہوئی ہو تو قابل قبول ہوتی ہے۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اصلاح نفس کے لیے یہ زریں گر بتایا ہے کہ جن لوگوں سے کچھ حاصل کرنا ہو ان میں عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے علم حاصل کرنے کا انحصار تو عقیدت اور ادب پر ہی ہے۔ نصیحت بھی اس وقت تک دل پر اثر نہیں کرتی جب تک سننے والا عقیدت سے نہ سنے اس کے علاوہ یہ بات بھی ہمہ وقت ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ عیب ڈھونڈ نے کی نظر سے دیکھا جائے تو اچھے اچھے آدمی میں بھی کوئی خامی نکل آئے گی۔
0 Comments