جب ایک مسلمان والد نے جواں سال بیٹے کے قاتل کو گلے لگایا

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

جب ایک مسلمان والد نے جواں سال بیٹے کے قاتل کو گلے لگایا

عدالت میں ایک مسلمان والد نے اپنے جواں سال بیٹے کے قاتل کو گلے لگا کر ججوں سمیت پورے کمرہ عدالت کو آنسووں سے رلا کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ برطانوی اخبار ‘ڈیلی میل’ میں شائع تفصیلات کے مطابق چوبیس سالہ ٹرے ریلفورڈ کو عدالت نے تین سال قبل صلاح الدین جٹموڈ نامی لڑکے کو قتل کرنے کے الزام میں 31 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ ملزم ٹرے ریلفورڈ نے کنٹکی، لیگژنٹن میں پیزا ڈیلیوری کرنے والے جٹموڈ کو راہزنی کی ایک واردات کے دوران چھرا گھونپ کر ہلاک کر دیا تھا۔

عدالتی کارروائی کے موقع پر مقتول صلاح الدین کے والد ڈاکٹر عبد المنعم  نے اپنے بیٹے کو نرم خو، دریا دل اور شرمیلا نوجوان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اسے پروڈکشن کے ساتھ لکھنے کا بھی شوق تھا۔ ڈاکٹر جٹموڈ نے کہا کہ قتل کی رات میرے بیٹے کے ذمہ صرف ایک اور پیزا ڈیلیوری کا آڈر باقی تھا، لیکن زندگی نے اسے پورا کرنے کی مہلت نہیں دی۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر ڈاکٹر عبد المنعم نے عدالت کو اس وقت صدمے سے دوچار کر دیا جب وہ اپنے بیٹے کی قاتل کی سمت یہ کہتے ہوئے مڑے کہ “جو کچھ ہوا، اس کا دوش وہ قاتل کو نہیں دیتے۔ مجھے تو شیطان پر اصل غصہ ہے جس نے تمھیں [قاتل کو] ایسے جرم کے لئے گمراہ کیا۔”

انھوں نے کہا کہ ملزم کو معاف کرنا ضروری ہے کیونکہ معافی اسلام میں سب سے اچھی خیرات ہے۔ مقتول کے والد کی تقریر سن کر جج کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے رخسار سے آنسو پونچھتے ہوئے عدالتی کارروائی میں وقفے کا اعلان کیا۔ وقفے کے بعد عدالتی کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا تو ملزم ریلفورڈ کی ماں نے اپنے بیٹے کا ناز ونعم سے گذرا بچین یاد کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکپن میں اسے نشے کی عادت پڑ گئی تھی۔ انہوں نے مقتول کے والد ڈاکٹر جٹموڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “کہ آپ کے خوبصورت بیٹے کو پہنچنے والے گزند کی میں کلی طور پر ذمہ دار ہوں۔ مجھے آپ کے نقصان پر شدید افسوس ہے، تاہم آپ کی معافی نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔” بعد میں ٹرے ریلفورڈ نے جو کچھ ہوا، اس پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، میں معافی دینے پر آپ کا شکر گذار ہوں۔ ڈاکٹر جٹموڈ نے ریلفورڈ سے ہاتھ ملایا اور اسے گلے لگا لیا، جس پر دونوں خاندانوں کے دیگر افراد بھی ان کے گرد جمع ہو گئے۔
 

Post a Comment

0 Comments