امریکہ میں ایک مسیحا ایسا بھی ہے جو جان لیوا مرض کے شکار معصوم بچوں کو اپنے گھر میں رکھ کر انہیں ہر ممکن حد تک خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مریض بچے کسی بھی وقت موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ 62 سالہ محمد بزیک ایک عرصے قبل لیبیا سے امریکہ آئے تھے اور گزشتہ 20 برس سے وہ ایسے بچوں کو گود لے کر کفالت کر رہے ہیں جو ہسپتال جا کر صرف موت کے شکار ہوتے ہیں۔ محمد بزیک انہیں ہر ممکن طور پر خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ہنساتے ہیں اور امید دلاتے ہیں۔ صرف لاس اینجلس ہی میں 35000 ایسے بچے ہیں جو میڈیکل کیس مینجمنٹ سروسز کے تحت آتے ہیں۔ ان کی طبی ضروریات بھی بہت خاص ہوتی ہیں اور ان بچوں کو گھر کے پیار کی شدید ضرورت ہوتی ہے جبکہ محمد بزیک وہ واحد شخص ہیں جو انہیں گھر کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
لاس اینجلس میں ڈپارٹمنٹ آف چلڈرن اینڈ فیملی سروسز (ڈی سی ایف ایس) کی میلسا ٹسٹرمین کہتی ہیں کہ جب کوئی ہمیں کسی بچے کو گھر کا ماحول فراہم کرنے کی درخواست کرتا ہے تو ہمارے ذہن میں صرف محمد بزیک کا نام آتا ہے۔ ’ایسے انتہائی حساس بچوں کو صرف محمد بزیک ہی دیکھ سکتا ہے،‘ انہوں نے کہا۔ 1978 میں محمد بزیک لیبیا سے کیلیفورنیا آئے تھے اور یہاں ایک خاتون بیمار بچوں کی اسی طرح کفالت کر رہی تھی اور ان کا گھر ایسے بچوں کےلیے ایمرجنسی پناہ گاہ کا درجہ رکھتا تھا۔ محمد بزیک نے 1989 میں ان خاتون سے شادی کر لی اور پھر یہ دونوں مل کر انتہائی بیمار بچوں کی کفالت کرنے لگے۔ اس کے بعد بزیک نے ایک سال میں درجنوں بچوں کو گود لیا۔ بعد ازاں انہوں نے آس پاس کے اسکولوں اور کالجوں میں ایسے بیمار بچوں کی نگہداشت اور موت برداشت کرنے کے لیے کلاسیں فراہم کرنا شروع کر دیں۔ ان کی بیوی کا نام ڈان تھا جو مقبول ہوتے ہوتے امریکہ کی سب سے مشہور فوسٹر ماں یعنی پرورش کرنے والی خاتون کہلائیں۔
پھر 1991 میں پہلے بچے کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد انہوں نے صرف ایسے بچوں کو گود لیا جو پیدائشی طورپر کینسر یا کسی اور جان لیوا بیماری کے شکار تھے اور اپنی موت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی ان بچوں کو قبول نہیں کرنا چاہتا۔ ’اصل بات یہ ہے کہ ان بیمار بچوں کو عین اپنے بچوں کی طرح پیار کیا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں انسان ہونے کے ناتے پوری کوشش کرتا ہوں کہ انہیں سب کچھ دے سکوں اور انہیں بعد میں اللہ کے حوالے کر دیا جائے،‘ بزیک نے بتایا۔ 1997 میں بزیک کا ایک ہی حقیقی بیٹا تھا جس کا نام آدم رکھا گیا۔ آدم کا قد چھوٹا رہ گیا اور اس کی ہڈیاں بہت بہت کمزور تھیں۔ یہاں تک کہ پیمپر تبدیل کراتے ہوئے بھی اس کی ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا تھا۔ ان سب کے باوجود محمد بزیک نے خندہ پیشانی سے اس کی پرورش کی۔ پھر 2000 میں ان کی بیگم طویل علالت کا شکار ہوئیں اور 2015 میں فوت ہو گئیں۔
0 Comments