چند دِنوں پہلے میں اپنے چچا جان کے گھر گیا، تو انہوں نے کسی رنجش کی بنیاد پر میرے والد صاحب کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا، میں نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر جب اُن کے منہ سے میرے والد محترم کیلئے نازیبا ترین کلمات نکلنا شروع ہوئے تو میری برداشت جواب دے گئی، وہ بڑے تھے، اِس لیے اُن کے احترام کے باعث خاموش رہا اور غم و غصے کے ساتھ افسردہ ہو کر وہاں سے چلا آیا اور قسم کھائی کہ آئندہ چچا جان کے گھر کا رُخ تک نہیں کروں گا۔ یہ میری محبت کا تقاضا تھا جو کہ مجھے میرے والد صاحب سے ہے۔ کل جب میں نے سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے گستاخانہ مواد کے حوالے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس پڑھے تو یکدم میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم تازہ ہو گیا۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ،
’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے آپ، مال و جان، عزت و آبرو، اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی، اولاد یہاں تک کہ ہر رشتے سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے‘۔
پھر اچانک حضور رحمتِ عالم ﷺ کیلئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اندازِ تخاطب میرے صفحہ ذہن پر اُبھرا کہ وہ آپ ﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں جب حاضر ہو کر کلام کیا کرتے تھے، تو اصل بات سے پہلے یہ کلمات ادا کیا کرتے تھے کہ،
’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان یا رسول اللہ ﷺ!۔‘ پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے پورا قرآن، تمام احادیث، صحابہ و تابعین کا ایک ایک عمل عشقِ رسول ﷺ اور ادبِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا ہو، جیسے ایمان و اسلام کی اصل اساس ہی ادبِ رسول ﷺ ہو۔ پھر مجھے اذانِ بلالی، صدقِ صدیقِ اکبر، عدلِ عُمر ابن الخطاب، شرم و حیائے عثمانِ غنی، شجاعتِ حیدرِ کرار، استقلالِ حسینی، غرض ہر چیز کے پیچھے عشق و ادبِ رسول ﷺ نظر آنے لگا۔
مجھے ’راعنا‘ کے رد میں اُترا ہوا اللہ جل جلالہ کا حکم ’قولو انظرنا‘ سمجھ میں آنے لگا کہ جب ابتدائے اسلام میں منافقین نے حضور علیہ الصلوة و السلام کو مخاطب کرنے کے لفظ ’راعنا‘ کو غلط استعمال کرنا شروع کیا تو اللہ عزوجل کی محبت نے گوارا نہ کیا، اور حکم صادر فرمایا کہ ’راعنا‘ کی بجائے ’انظرنا‘ بولا جائے مطلب ’میری طرف نظرِ کرم فرمایئے‘۔ پھر مجھے سورة الحجرات کا ایک ایک لفظ عشق و ادبِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا نظر آنے لگا اور ساتھ ساتھ دوسری جانب سورة الہب کی صورت میں اللہ جل جلالہ کا غیض و غضب بھی نظر آنے لگا جو حضور ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا واضح پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
میں سوچنے لگا کہ اللہ عزوجل اور صحابہ کرام نے کبھی بھی حضور علیہ الصلوة والسلام کی عزت و حُرمت پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا، اور ایک میں ہوں کہ جو اپنے والدِ محترم کے خلاف تو ایک لفظ سُننے کا روادار نہیں لیکن اُس عظیم المرتبت شخصیت جس کا ذکر بلند کرنے کا دعویٰ اللہ جل جلالہ نے قرآنِ پاک میں کیا، جس کی ہر ہر ادا پر اللہ عزوجل قرآن میں قسمیں اُٹھاتا ہے، اُس ذاتِ بابرکات کی عزت و ناموس پر جب بات آتی ہے اور سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد شائع ہوتا ہے تو میں کان دبائے ایک طرف ہوجاتا ہوں۔ چچا کے گھر کا رُخ نہ کرنے کی قسم کھاتے ہوئے شاید میں نے ایک لمحہ بھی نہ سوچا ہو لیکن سوشل میڈیا کا رُخ نہ کرنے کا سوچ کر مجھ پر غشی طاری ہونے لگتی ہے کہ میں نے اگر ایک دن فیس بُک استعمال نہ کیا اور اُس پر اپنی تصاویر پر آنے والے کمنٹس اور لائیکس نہ دیکھے تو میرا خُود ستائشی کا مارا ہوا نفس کیا کرے گا؟
نہیں نہیں جناب نہیں! مجھے ایسا سوشل میڈیا سِرے سے چاہیئے ہی نہیں۔ ہرگز ہرگز نہیں چاہیئے جو آزادی اظہارِ رائے کے نام پر میرے نبی پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کا بھی مرتکب ہو، چاہے وہ اشارتاً ہی کیوں نہ ہو۔ میرا ایمان فیس بُک یا سوشل میڈیا سے نہیں بلکہ عشقِ رسول اور ادبِ رسول ﷺ سے مکمل ہو گا اور اِس تکمیل کی خاطر میں سوشل میڈیا پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ’چار حرف‘ بھیجنے کو تیار ہوں۔ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے وزیرِ داخلہ کو اِس معاملے پر طلب کیا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی تک کو بھی بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی جو اب تک اس معاملے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے اور اُنہوں نے اِس گستاخی کو دہشت گردی قرار دیا۔
اِس کے ساتھ ساتھ مجھے دھرنے، لانگ مارچ، احتجاج، توڑ پھوڑ اور نعرے بازی کی سیاست کرنے والوں پر بھی حیرت ہے کہ وہ وجہِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں اِس صریح گستاخی کے باوجود اب تک خاموش کیوں ہیں؟ حکومت پر کسی نے دباؤ کیوں نہیں ڈالا کہ وہ اِس قبیح و بدترین فعل میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچائے؟ اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی اپنا اپنا مواخذہ کرتے ہوئے سوچنا ضرور چاہیئے کہ کیا واقعی ہمیں اپنے جان و مال، عزت و آبرو، ماں، باپ، بہن، بھائی اور سے زیادہ حضورِ رحمت ِعالم، نورِ مجسم ﷺ کی عزت و ناموس عزیز ہے؟ ایسے گستاخانہ پیجز اپنے ایڈمنز سمیت فی الفور بلاک ہونے چاہئیں، ورنہ ہمیں ایسا سوشل میڈیا ہی نہیں چاہیئے!
محمد حسان
0 Comments