ایک لڑکا تھا ، اس کی عمر یہی کوئی نو دس بر س ہوگی ، وہ بھی اپنی عمر کے
لڑکوں کی طرح شریر تھا ، بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی ۔ یہ وہ دورتھا جب نہ آ ج کی طرح بجلی کے پنکھے ، نہ گیس کے چولہے ، گھر بھی مٹی کے ، چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا ، اور نہ اس زمانہ میں دولت تھی ماں نے اپنے مہمانوں کیلئے کھا نا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا ، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا، بچے نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی ۔ اب آپ خود ہی اس ما ں کی مشکل کا اندازہ کرسکتے ہیں ، غصے کا آنا بھی فطری عمل تھا ۔ غصہ سے بھری ماں نے صر ف اتنا کہا کہ " جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنا دے ۔ اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے ، آپ جانتے ہیں کہ یہ شریر لڑکا کون تھا ؟ پھر خو د ہی جواب دیتے ہیں وہ شریر لڑکا " میں " تھا جسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہو ا ہے ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ 2010 تک کے عالمی سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ امام کعبہ عبدالرحمن السدیس اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی مقبو ل ترین شخصیت ہیں ۔ اللہ نے اُن کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت عطا کی کہ اپنے گھر کا امام بنا دیا ، اب نہ صرف وہ امام کعبہ ہیں بلکہ حرمین کی نگران کمیٹی کے صدر اور امام الائمہ ہیں ۔ ڈاکٹر صا حب نے یہ واقع کئی با ر سنایا اورسناتے ہوئے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے یہ واقعہ سنا کر دنیا بھر کی مسلمان ماؤں کی توجہ دلا ئی ہے کہ وہ اولا د کے معاملے میں ذرا دھیا ن دیں، اور غصہ یا جذبات سے مغلوب ہو کر اپنی اولا د کو بُرا بھلا نہ کہہ بیٹھیں ۔ کیونکہ ماؤں کے ہونٹوں کی " ہلکی سی جنبش " اولا د کا نصیب لکھ دیتی ہے ۔ توجہ طلب با ت یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں والدین بالخصوص مائیں اولا د کی غلطی پر ان کو بُرا بھلا کہہ دیتی ہیں ، حالانکہ ان کیلئے ہدایت اور صالح بننے کی دعا کرنی چاہئے۔
آپ سب یاد رکھئے کہ ایمان اورصحت کے بعد اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت اولاد ہے ۔ حتیٰ کہ قرآ ن پاک میں اولا د کو " آنکھوں کا قرار " قرار کہا گیا ہے ، زندگی کی رونق مال یا مکان خوبصورت لباس سے نہیں ہے بلکہ زندگی کی تمام تر بہاریں اور رونقیں اولا د کے دم سے وابستہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ذکریہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں نے نبوت کی سعا دت ملنے کے باوجود اللہ سے اولا د ہی مانگی تھی ۔ لہٰذا ہر عورت کا جو ماں ہے فر ض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی قدر کریں اور ہمیشہ ان کیلئے دعا کرتی رہیں ۔ بچے تو بچے ہی ہوا کر تے ہیں ، وہ شرارت نہ کریں تو کیا بوڑھے شرارت کرینگے کبھی بچو ں کی شرارت سے تنگ آکر ان کو بُرا بھلا مت کہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتا نا پڑے ۔اللہ کے نبی ﷺ نے بھی اس سے منع کیا ہے اہم یہاں حدیث کا مفہوم ذکر کرر ہے ہیں۔ اپنے لئے اپنے بچوں کیلئے ، اپنے ماتحت لوگوں کیلئے اللہ سے کبھی بُری یا غلط دعا نہ مانگو ،ہوسکتا ہے کہ جب تم ایسا کر رہے ہو ، وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہو ۔
ما ں باپ کے منہ سے نکلے ہوئے جملے کبھی کبھی اولا د کا مقدر لکھ دیتے ہیں ۔اسی لیے حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اولا د کو عزت دو ، اور ان کی قدر کرو، کیونکہ وہ تمہارے بعد تمہارا نشان بن جاتے ہیں یعنی والدین کی وفا ت کے بعد اولا د کے دم سے ان کا نام باقی رہتا ہے ۔ امام کعبہ کا یہ واقعہ مسلمانوں کیلئے اور مسلم معاشرہ کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے ، اور اس پر عمل کرنا بھی کوئی مشکل کا م نہیں ہے ۔ اچھی فصل بو کر اچھا پھل لینے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ ہم سب کو اس پر کا ر بند رہنے کی کوشش کر نی چاہیے ۔
جزا ک اللہ
شہریار اصغر مرزا
لڑکوں کی طرح شریر تھا ، بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی ۔ یہ وہ دورتھا جب نہ آ ج کی طرح بجلی کے پنکھے ، نہ گیس کے چولہے ، گھر بھی مٹی کے ، چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا ، اور نہ اس زمانہ میں دولت تھی ماں نے اپنے مہمانوں کیلئے کھا نا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا ، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا، بچے نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی ۔ اب آپ خود ہی اس ما ں کی مشکل کا اندازہ کرسکتے ہیں ، غصے کا آنا بھی فطری عمل تھا ۔ غصہ سے بھری ماں نے صر ف اتنا کہا کہ " جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنا دے ۔ اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے ، آپ جانتے ہیں کہ یہ شریر لڑکا کون تھا ؟ پھر خو د ہی جواب دیتے ہیں وہ شریر لڑکا " میں " تھا جسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہو ا ہے ۔
0 Comments