کعبۃ اللہ کے اندر کیا کیا ہے، تصاویر ملاحظہ کیجیے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Ads by Muslim Ad Network

کعبۃ اللہ کے اندر کیا کیا ہے، تصاویر ملاحظہ کیجیے

کعبۃ اللہ قریباً 180 مربع میٹر رقبے پر محیط ہے اور اس کی چھت لکڑی کے تین مضبوط ستونوں پر ایستادہ ہے۔ ستونوں کی لکڑی دنیا کی مضبوط ترین لکڑیوں میں سے ایک ہے اور صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے  لکڑی کے یہ تینوں ستون بنوائے تھے۔ گویا اس وقت ان کو 1350 سال گزر چکے ہیں۔ ان کی رنگت گہری بھوری ہے۔ لکڑی کے ہر ستون کا عمود ( محیط) قریباً 150 سینٹی میٹر اور قطر (موٹائی) 44 سینٹی میٹر ہے۔ ان تینوں ستونوں کے درمیان میں ایک پتلی شہتیر نما لٹھ آویزاں ہے اور یہ تینوں کے بیچوں بیچ گزرتی ہے۔ اس پر کعبۃ اللہ کے تحائف اور نوادرات لٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے دونوں اطراف کعبہ کی شمالی اور جنوبی دیواریں ہیں۔


مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے انتظام وانصرام کے ذمے دار ادارے (الحرمین الشریفین صدارت) نے العربیہ کو بتایا ہے کہ کعبہ کے دائیں جانب اندرونی حصے میں رکنِ شامی ہے۔ اس میں ایک سیڑھی ہے جو مستطیل نما کمرے کی جانب جاتی ہے۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ اس کا ایک دروازہ ہے اور اس کا خصوصی تالا ( قفل) ہے۔ اس کے دروازے پر خوب صورت ریشم کا پردہ لٹکا ہوا ہے اور اس پر سنہرے اور نقرئی رنگ کی کشیدہ کاری ہوئی ہے۔



صدارت نے یہ بھی بتایا ہے کہ کعبہ کا اندرونی فرش سنگِ مرمر کا ہے۔ یہ زیادہ تر سفید ہے۔ تا ہم سنگ مرمر کے دوسرے رنگوں کے ٹکڑے بھی فرش پر لگے ہوئے ہیں۔ کعبہ کا اندرونی حصہ خوب صورت سنگ مرمر کے ٹکڑوں سے مزیّن ہیں اور سرخ رنگ کی ریشم کے پردے سے ڈھانپا ہوا ہے۔ اس پر سفید رنگ سے عربی میں عبارات اور اسمائے حسنیٰ لکھے ہوئے ہیں۔ اسی پردے نے کعبے کی چھت کو بھی ڈھانپ رکھا ہے۔

 

کعبہ کے اندر آٹھ پتھر ہیں۔ ان پر خطِ ثلث میں عربی عبارتیں کندہ ہیں۔ ایک پتھر پر خطِ کوفی میں عربی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ یہ خوب صورت لکھائی چھٹی صدی  ہجری کے بعد کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ دیوارِ شرقی پر کعبے کے دروازے اور باب التوبہ کے درمیان سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود کی ایک دستاویز ہے جو سنگِ مرمر پر کندہ کی گئی ہے۔ اس میں کعبہ کی تزئین نو کی تاریخ درج ہے۔ اس طرح کعبہ کے اندر عبارتوں پر مشتمل پتھروں کی تعداد دس ہے اور یہ تمام سفید سنگ مرمر کے ہیں۔




Post a Comment

0 Comments